Rabi ul Awal Ke Moqe Par juloos Nikalne Aur Pahariyan Banane Ki Sharai Haisiyat

ربیع الاول کے موقع پرجلوس نکالنے اور پہاڑیاں بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

مجیب: محمدعرفان مدنی

مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: 8085- Lar

تاریخ اجراء:       11 ربیع الاول  1443 ھ/ 18 اکتوبر2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان  مسائل کے بارے میں کہ(1) بارہ ربیع الاول کے موقع پرمروجہ جلوس نکالنے کی شرعی حیثیت کیاہے؟(2) اورربیع الاول کے مہینے میں پہاڑیاں بنانے کی شرعی حیثیت کیاہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)بارہ ربیع الاول شریف کے دن ناجائزوممنوع کاموں وغیرہ سے پاک،شرعی حدودمیں رہتے ہوئے جلوس نکالناشرعاجائزہے کہ  شرع سے اس کی ممانعت ثابت نہیں،بلکہ اچھی نیت کے سبب مستحب اورباعث ثواب ہے کہ اس  میں تعظیم مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  اوراظہارمحبت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہے اوراللہ تعالی کی نعمت عظمٰی کا چرچا اور اس پرمسرت کا اظہار کرکے رب تبارک وتعالی کاشکراداکرناہے، نیزاس کے سبب مسلمانوں کے دلوں میں عظمت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کواجاگرکرنااوران کے دلوں میں محبت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بڑھاناہے اوریہ تمام کام ثواب کے ہیں اورشرع کومحبوب و مرغوب اورمطلوب ہیں ۔پس نعمت کاچرچاکرنے ، اورتعظیم مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بجالانے والے مطلق دلائل  کے تحت یہ داخل ہوگا۔

   البتہ یہ یادرہے کہ جلوس کے ساتھ ناجائزوممنوع کام مثلاڈھول،باجے وغیرہ کرنے کی شرعاہرگزہرگزاجازت نہیں ہے ،جوایساکریں یااس میں معاون ہوں ،وہ سب گنہگارہیں ،ان پرلازم ہے کہ ان  ناجائزوممنوع کاموں کوترک کریں۔

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے :﴿ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّث﴾ترجمہ کنزالایمان:’’ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔‘‘(سورۃ الضحٰی،پارہ30،آیت11)

بخاری شریف میں ہے :’’محمد صلى اللہ عليه وسلم نعمة اللہ‘‘ ترجمہ:محمدصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کی نعمت ہیں ۔(صحیح البخاری،کتاب المغازی،جلد02،صفحہ566،مطبوعہ کراچی)

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے : ﴿ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًاوَّمُبَشِّرًاوَّنَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُؕ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر  اور خوشی اور ڈر سناتاتاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔(سورۃ الفتح ،پارہ26،آیت09،08)

   جب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے(زادھمااللہ شرفاوتعظیما) تواہل مدینہ کی خوشی دیدنی تھی،صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ :’’مرداورعورتیں چھتوں پرچڑھ گئے اورخادمین اوربچے گلیوں میں منتشرہوکرنعرہ رسالت بلندکرنے لگ پڑے‘‘ اس  سے واضح ہوا کہ خوشی کےموقع پرگلیوں اورسٹرکوں وغیرہ پرنکل کرنعرہ رسالت لگانابالکل جائزہے اورصحابہ کرام علیہم الرضوان کاپسندیدہ طریقہ ہے ،اوراس میں   میلادشریف کے شرعی حدودمیں نکالے جانے والے مروجہ جلوسوں  کے لیے واضح دلیل ہے ۔چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:’’ فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم فی الطرق، ينادون: يا محمد يا رسول اللہ يا محمد يا رسول اللہ‘‘ ترجمہ:پس مرداورعورتیں چھتوں پرچڑھ  گئے اوربچے اورخادمین راستوں میں منتشرہوگئے،وہ یامحمد،یارسول اللہ ، یا محمد ، یارسول اللہ(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کے نعرے لگانے لگے ۔(صحیح المسلم،کتاب الزھد،باب فی حدیث الھجرۃ،جلد02،صفحہ419،مطبوعہ کراچی)

   فتاوی رضویہ شریف میں ہے:’’اور تعظیم حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مطلقاً ماموربہ۔۔۔۔اور مطلق ہمیشہ اپنے اطلاق پر جاری رہے گا، جب تک کسی خاص فرد سے منع شرعی نہ ثابت ہو، جیسے سجدہ۔۔۔بحمداللہ تعالی  مسلمانوں کے ایمان میں تعظیمِ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عین ایمان، ایمان کی جان ہے اور علی الاطلاق مطلوب شرع، تو جو کچھ بھی جس طرح بھی جس وقت بھی جس جگہ بھی تعظیمِ اقدس کے لیے بجالائے خواہ وہ بعینہٖ منقول ہو یا نہ ہو سب جائز ومندوب ومستحب ومرغوب ومطلوب وپسندیدہ وخوب ہے ،جب تک اُس خاص سے نہی نہ آئی ہو جب تک اُس خاص میں کوئی حرجِ شرعی نہ ہو، وہ سب اس اطلاق ارشادِ الٰہی﴿ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُؕمیں داخل اور امتثال حکم الٰہی کا فضل جلیل اسے شامل ہے،ولہذا ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ جو کچھ جس قدر ادب وتعظیم حبیب رب العالمین جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں زیادہ مداخلت رکھے اُسی قدر زیادہ خوب ہے۔‘‘       (فتاوی رضویہ،جلد05، صفحہ650، 651،رضافاونڈیشن،لاھور)

(2)اورپہاڑیاں بنانا بھی فی نفسہ شرعاجائزودرست ہے ،اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ غیرجاندارچیزکاماڈل بناناہے اوریہ ایسے ہی ہے ،جیسے کعبہ معظمہ وگنبدخضری وغیرہ کے ماڈل بنانا۔ ہاں بعض جگہوں پراس کے ساتھ جانداروں کے مجسمے رکھے جاتے ہیں اوربے پردہ خواتین کاجھرمٹ ہوتاہے ، مردوں اورعورتوں کااختلاط وغیرہ ناجائزامورہوتے ہیں، توان تمام چیزوں کی شرعااجازت نہیں ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں جاندارکی تصویرکے متعلق احکام بیان کرنے کے بعدفرمایا: ’’ یہ سب متعلق بتصاویرذی روح تھا۔ رہا نقشہ روضۂ مبارکہ اس کے جواز میں اصلا مجال سخن وجائے دم زدن نہیں، جس طرح ان تصویروں کی حرمت یقینی ہے، یوں ہی اس کاجواز اجماعی ہے۔ ہر شرع مطہر میں ذی روح کی تصویر حرام فرمائی ، حدیث پانزدہم میں اس قید کی تصریح کردی، حدیث اول میں ہے کہ ایک مصور نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت والا میں حاضر ہو کر عرض کی، میں تصویریں بنایا کرتاہوں، اس کا فتوی دیجئے، فرمایا: پاس آ ،وہ پاس آیا، فرمایا: پا س آ۔ وہ اور پاس آیا، یہاں تک کہ حضرت نے اپنا دست مبارک اس کے سر پر رکھ کر فرمایا کیا میں تجھے نہ بتادوں وہ حدیث جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنی، پھر حدیث مذکور مصوروں کے جہنمی ہونے کی ارشاد فرمائی، اس نے نہایت ٹھنڈی سانس لی، حضرت نے فرمایا:’’ویحک ان ابیت الا ان تصنع فعلیک بھذا الشجر وکل شیئ لیس فیہ روح ‘‘(افسوس تجھ پر اگر بے بنائے نہ بن آئے، تو پیڑ اور غیر ذی روح چیزوں کی تصویریں بنایا کر۔)‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ439،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم