Rabi ul Awal Ki Aamad Ki Khushi Me Nikalne Wale Juloos Mein Aatish Baazi Karna

ربیع الاول کی آمد کی خوشی میں نکلنے والے جلوس میں آتش بازی کرنا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: SAR-7499

تاریخ اجراء:       22 صفر المظفر 1443 ھ/ 30 ستمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  کیا یکم ربیع الاوّل کے موقع پر استقبالِ ربیع النور کے سلسلہ میں نکلنے والے جلوس میں آتش بازی ( آتش بازی کے پھول  ،گولے ،شُرلیاں وغیرہ ) کا استعمال کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ماہِ ربیع الاوّل کا استقبال کرنا ، خوشی منانا ، اس سلسلے میں جلوس نکالنا ،محافل کا انعقاد کرنا ،یقیناً بہت اچھے کام ہیں  ،لیکن اس میں آتش بازی ، فائرنگ ، ڈھول ،بینڈ باجے بجانا وغیرہ ، ناجائز و گناہ ہے  ،کیونکہ  اس میں مال کو ضائع کرنا ہے ،اسی طرح  رات کے وقت آتش بازی کرنے میں اسراف کے ساتھ ساتھ  ایذائے مسلم  یعنی مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا بھی ہے کہ اس سے عام مسلمانوں بالخصوص آس پاس کے گھروں میں موجود بچّوں ، بوڑھوں ، بیماروں اور کمزور دل مَردوں اور عورتوں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے  اور کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی ایذا دینا حرام ہے۔

   ایک قباحت آتش بازی میں یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بعض اوقات لوگوں کو اپنی جان و مال سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور  کسی مسلمان کے جان و مال یا عزّت کو نقصان پہنچانا ناجائز و گناہ ہے۔

   یاد رہے !جس پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ولادت کی خوشی میں ان تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، انہوں نے ہی ایسے بےہودہ کاموں سے منع فرمایا ہے،لہٰذاایسی خرافات سے دور رہتے ہوئے ہی ایسے نیک کاموں کا انعقاد کیا جائے۔

   آتش بازی میں مال کا ضیاع  اور اسراف ہے ،جو  گناہ ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :﴿وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا﴾ ترجمہ کنزالعرفان ’’: اور فضول خرچی نہ کرو ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا  ناشکرا ہے۔“( پارہ  15 ، سورۃ الاسراء ،آیت 26 ،27)

   مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے تحت صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: یعنی ناجائز کام میں خرچ نہ کر ، حضرت ابنِ مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ تبذیر مال کا ناحق میں خرچ کرنا ہے ۔(تفسیرِ خزائن العرفان ، صفحہ 530 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

   نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  فضول خرچی کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :إن اللہ کرہ لکم ثلاثا: قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین کاموں کو ناپسند فرمایا: فضول باتیں کرنا ، مال ضائع کرنا اوربہت زیادہ سوال کرنااور مانگنا۔ (صحیح البخاری  ، کتاب الزکوٰۃ  ،جلد 1 ،صفحہ 283 ،مطبوعہ لاھور )

   محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدثِ دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:’’من البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلادالھند من اجتماعھم للھو واللعب بالنارواحراق الکبریت‘‘ترجمہ : بُری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں ، جیسے آگ کے ساتھ کھیلنے اور تماشہ کرنے کے لیے جمع ہونا، گندھک جلانا یعنی آتش بازی کر نا وغیرہ۔(ماثبت بالسنّۃ ،المقالۃ الثالثۃ ،صفحہ 216 ،مطبوعہ  مجتبائی دھلی ،ھند )

   شیخ الاسلام و المسلمین  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ’’آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہے،بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال (مال کو ضائع کرنا)ہے،قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا۔قال اللہ تعالیٰ﴿  لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا﴾(اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:کسی طرح بے جا خرچ نہ کیا  کرو ،کیونکہ بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے)۔“(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الحظر والاباحۃ ،جلد 23 ،صفحہ 279 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   رات کے وقت آتش بازی کرنایقیناً مسلمانوں کی ایذا کا باعث بنتا ہےاور بلا وجہِ شرعی کسی مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے، چنانچہ  حدیث پاک میں ہے:’’من اٰذی مسلماً  فقد اٰذانی  ومن اٰذانی  فقد اذی اللہ‘‘ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذا دی ۔( المعجم الاوسط، باب السین، من اسمہ سعید، جلد 4، صفحہ 60، دار الحرمین، قاھرہ )

   آتش بازی کے سبب مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور کسی مسلمان کے جان و مال کو نقصان پہنچانا ، ناجائز و گُناہ ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ  ترجمہ : ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔( الصحیح لمسلم ، کتاب البر والصلة ،  باب تحریم  ظلم المسلم    ۔۔، جلد 2 ،صفحہ 321 ،مطبوعہ لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم