Roz e Mehshar Kon Kon Shafaat Karega ?

روزحشرکون کون شفاعت کرے گا؟

مجیب: ابو رجا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-994

تاریخ اجراء:       20محرم الحرام1444 ھ/20اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کون کون شفاعت کرے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قیامت کے دن انبیائے کرام،  اولیاء و علمائے عظام، حافظ اور حاجی صاحبان  سب شفاعت کریں گے۔  بلکہ ہر وہ شخص کہ جسے دینی منصب عطا کیا گیا ، اپنے متوسلین و متعلقین کی شفاعت کرے گا۔

   المعتقد المنتقد میں ہے:"ویجب الایمان بانہ یشفع غیرہ ایضا من الانبیاء و الملائکۃ و العلماء و الشھداء و الصٰلحین و کثیر من المومنین وغیرھم من القرآن و الصیام و الکعبۃ وغیرھا مما ورد فی السنۃ"اور اس بات پر ایمان بھی واجب ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ دیگر انبیاء، فرشتے، علماء، شہداء، نیک لوگ اور کثیر مومنین اور ان کے علاوہ قرآن پاک، روزہ، کعبہ، وغیرہا وہ چیزیں کہ جن کی شفاعت کا احادیث میں ذکر ہوا ، وہ تمام بھی شفاعت کریں گی"(المعتقد المنتقد، صفحہ 129)

   سیّدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہالرحمہ  نے یہاں ایک نفیس نکتہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ پاک  کے حضورشفاعت کرنے والے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو ں گے اور مخلوق میں شفاعت کرنے والے باقی سب اپنے متعلقین کی شفاعت،حضور کی بارگاہ میں پیش کریں گے۔ بہر صورت وہ بھی شفاعت ضرور فرمائیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ میں شفاعت لانا بھی شفاعت ہی ہے، اس سے خارج نہیں ۔

   چنانچہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اذا کان یوم القیٰمۃ کنت امام النبیین و خطیبھم و صاحب شفاعتھم غیر فخر۔“ترجمہ :جب قیامت کا دن ہوگا تو میں انبیاء کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور میں ان کی شفاعت کرنے والا ہوں ۔ یہ بات بطورِ فخر نہیں فرما رہا۔  (ترمذی،ج5،ص353، حدیث:3633 )

   اس حدیثِ پاک کا نفیس و لطیف معنی بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرَّحمہ  فرماتے ہیں:”و المعنی الآخر الالطف الاشرف ان لاشفاعۃ لاحد بلاواسطۃ عند ذی العرش جل جلالہ الا للقرآن العظیم و لھذا الحبیب المرتجی الکریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، واما سائر الشفعاء من الملائکۃ والانبیاء والاولیاء والعلماء و الحفاظ و الشھداء و الحجاج و الصلحاء ،فعند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فینھون الیہ و یشفعون لدیہ وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یشفع لمن ذکروہ ولمن لم یذکروا عند ربہ عزوجل وقد تاکد عندنا ھذا المعنی باحادیث۔ وللہ الحمد“ ترجمہ: اس حدیث پاک کادوسرا معنیٰ کہ جو زیادہ لطیف و شریف ہے وہ یہ ہے کہ مالکِ عرش اللہ جلَّ جلالہ کی بارگاہ میں بلا واسطہ شفاعت کا حق صرف قرآنِ عظیم اور حبیبِ کریم کہ جن سے امیدیں لگی ہوئی ہیں اِنہی کو حاصل ہے، ان کے علاوہ کسی کو نہیں ۔اس کے علاوہ باقی شفاعت کرنے والے یعنی ملائکہ، انبیاء، اولیاء، علماء، حفاظ، شہداء، حجاج ، صالحین کی شفاعت تو وہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہوگی تو وہ حضور کی بارگاہ میں بات پہنچائیں گے اور شفاعت لائیں گے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان مذکورین اور ان کے علاوہ جو مذکور نہیں، ان کی شفاعت ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں فرمائیں گے ۔ہمارے نزدیک یہ معنی کئی احادیث سے مؤکدہے۔وللہ الحمد۔(المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد، ص127)

   فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں :احادیث سے ثابت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صاحبِ شفاعت ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضوروہ شفیع ہوں گے اور ان کے حضور علماء و اولیاء اپنے متوسلوں کی شفاعت کریں گے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج21،ص464 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم