Sahib e Mazar Se Allah Ki Bargah Mein Sifarish Ki Arz Karna Kaisa ?

صاحبِ مزار سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کی عرض کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2850

تاریخ اجراء: 28ذوالحجۃالحرام1445 ھ/05جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی مزار پر  جاکر صاحب مزار  کی بارگاہ میں یہ عرض  کر  نا  کہ وہ (صاحب مزار) ہماری   حاجت روائی کےلئے اللہ کی بارگاہ میں دعا وسفارش  کریں ،کیا ایسا کسی آیت قرانی یا حدیث پاک سے ثابت  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! کسی مزار پر  جاکر صاحب مزار  کی بارگاہ میں یہ عرض  کر نا   کہ وہ (صاحب مزار) ہمارے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا وسفارش  کریں، حدیث پاک سے ثابت ہے ، بلکہ خود قرآن عظیم سے اس پررہنمائی ملتی ہے ۔

   چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:”وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا “ترجمہ کنز الایمان: تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(سورۃ النساء، پارہ5، آیت64)

   مذکورہ بالاآیت کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:”اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضہء اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا، میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی۔

   اس سے چند مسائل معلوم ہوئے۔مسئلہ: اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے۔مسئلہ: قبر پر حاجت کے لئے جانا بھی”جَآءُ وْکَ“ میں داخل اور خیرُ القرون کا معمول ہے ۔مسئلہ: بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا )کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے۔مسئلہ:مقبُولانِ حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔(تفسیر خزائن العرفان،صفحہ173،مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

   اپنی حاجت روائی کے لئے صاحب مزار سے دعا کرنا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں ہماری حاجت پوری کرنے کی دعا کریں، جائز ہے،جیساکہ  وفاء الوفاء اورمصنف ابن ابی شیبہ،سنن بیہقی وغیرہ کئی  کتب حدیث  میں روایت ہے:”واللفظ للاول: وقد يكون التوسل به صلى الله عليه وسلم بعد الوفاة بمعنى طلب أن يدعو كما كان في حياته، ۔۔۔ أصاب الناس قحط في زمان عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقال: يا رسول الله، استسق الله لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتاه رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في المنام فقال: ائت عمر فاقرئه السلام وأخبره أنهم مسقون، وقل له: عليك الكيس الكيس، فأتى الرجل عمر رضي الله تعالى عنه فأخبره، فبكى عمر رضي الله تعالى عنه ثم قال: يا رب ما آلو إلا ما عجزت عنه.وروى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة رضي الله تعالى عنهم“ترجمہ:بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی وفات  کے بعدطلب کرنے کے معنی میں بایں طور توسل کیا جاتا ہے کہ  وہ ایسے ہی دعا کریں جیسے اپنی زندگی میں دعا کرتے تھے۔۔۔چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو ایک شخص نے سلطانِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ تو وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے ، پھر عرض کی: یا رب ! عزوجل، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔سیف نے فتوح میں روایت کیا کہ وہ شخص جس نے مذکورہ خواب دیکھا وہ صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رضی اللہ عنہ تھے۔

   مذکورہ حدیث پاک کونقل کرنے کے بعد علامہ سہمودی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”ومحل الاستشهاد طلب الاستسقاء منه صلى الله تعالى عليه وسلم وهو في البرزخ ودعاؤه لربه في هذه الحالة غير ممتنع، وعلمه بسؤال من يسأله قد ورد، فلا مانع من سؤال الاستسقاء وغيره منه كما كان في الدنيا“ترجمہ:اس حدیث میں محل استشہاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کو طلب کرنا ہے  حالانکہ اس وقت وہ برزخ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حالت میں اپنے رب سے دعا کا  ممکن ہونا  ،اور سائل کے سوال کو جاننا وارد ہوا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے طلب بارش  اور اس کی علاوہ کسی اور حاجت  کا سوال کرنے سے کوئی مانع نہیں جیساکہ دنیا میں کیا جاتا تھا۔(وفاء الوفاء،جلد 4،صفحہ195،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم