Soyam Wale Din Chano Par Fatiha Parhne Ki Haqeeqat Kya Hai ?

سوئم والے دن چنوں پر فاتحہ پڑھنے کی حقیقت کیا ہے؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2857

تاریخ اجراء: 02محرم الحرام1445 ھ/09جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اکثر جگہ میت کے انتقال کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ  سوئم والے دن چنے پڑھوانے کا اہتمام کیا جاتا ہے،جس میں کلمہ شریف پڑھاجاتا ہے،اور پھر فاتحہ ہوتی ہے،پوچھنا یہ ہے کہ یہ چنوں پر فاتحہ کروانے کی کیا حقیقت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوئم   کی فاتحہ میں   خاص  چنوں پر فاتحہ کروانا،صرف ایک رسمی چیز ہے،جو  لوگوں کی طرف سے  عرف  و عادت  کے طور پر رائج ہے،اصل مقصود یہاں مرحوم  کو   ایصال ثواب کرنا  ہے ،اور ایصال ثواب  چنوں پر ہی موقوف نہیں ،بلکہ ہر جائز و حلال چیز  پر فاتحہ دلوا کر  ہوسکتا ہے،البتہ  چنوں پر فاتحہ دلوانے میں بھی   شرعاً  کوئی ممانعت نہیں ،  اگر کوئی خاص چنوں پر ہی فاتحہ دلائے تو یہ بھی درست ہے،شرعاً  اس میں کوئی حرج نہیں ، ہاں اگر کوئی اسے    لازم سمجھے  کہ بغیر چنوں کے ایصال ثواب ہی   نہ  ہوگا،تو  یہ  شرعاً   درست  نہیں اور یہ اس کی اپنی  لاعلمی  ہے۔

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’(ترجمہ) الحاصل حق یہ ہے کہ مذکورہ تخصیصات سبھی تعینات عادیہ سے ہیں جو ہر گز کسی طعن اور ملامت کے قابل نہیں ۔اتنی بات کو حرام اور بدعت شنیعہ کہنا کُھلی ہوئی جہالت اورقبیح خطا ہے۔مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب کےبھائی شاہ رفیع الدین دہلوی مرحوم  نے اپنے فتوے  میں کیا ہی عمدہ انصاف کی بات لکھی ہے۔  ان کی عبارت یُوں نقل کی گئی ہے :سوال: بزرگوں کی فاتحہ میں کھانوں کو خاص کرنا، مثلا امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی فاتحہ میں کھچڑا، شاہ عبدالحق رحمۃ اﷲ علیہ کی فاتحہ میں توشہ و غیر ذلک، یوں ہی کھانے والوں کوخاص کرنا، ان سب کا کیا حکم ہے؟ جواب: فاتحہ اور طعام بلاشبہہ مستحسن ہیں، اور تخصیص جو مخصص (خاص کرنے والے) کا فعل ہے، وہ اس کے اختیار میں ہے، ممانعت کا سبب نہیں ہوسکتا، یہ خاص کرلینے کی مثالیں ،سب عرف اور عادت کی قسم سے ہیں جو ابتداء میں خاص مصلحتوں اور خفی مناسبتوں کی وجہ سے رونما ہوئیں پھر رفتہ رفتہ عام ہوگئیں‘‘۔(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ591،590،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   خاص چنوں پر   فاتحہ ضروری نہیں ،اور چنوں پر ہی فاتحہ کی جائے تو ممانعت بھی نہیں ،جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے   فرمایا:’’(سوئم کی فاتحہ میں ) قرآن شریف وکلمہ طیبہ پڑھ کر ثواب پہنچانا اچھی بات ہے اور تیسرے دن کی خصوصیت بھی مصالح عرفیہ شرعیہ کی بنا پر ہے۔ اس میں بھی حرج نہیں۔۔۔(اور اس میں ) چنوں کی کوئی ضرورت نہیں، نہ چنے بانٹنے کے سبب کوئی  برائی پیدا ہو‘‘۔(فتاوی رضویہ،جلد9، صفحہ459، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے ،فتاوی رضویہ میں شب براءت کو ایک خاص حلوہ  بنا کر ایصال ثواب کرنے سے متعلق  سوال ہوا کہ  پختنی حلوہ شب برات کی کیا تخصیص ہے؟

   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’یہ تخصیص عرفی ہے لازم شرعی نہیں۔ ہاں اگر کوئی جاہل اُسے شرعا لازم جانے کہ بے حلوے کےثواب نہ پہنچے گا تو وہ خطا پر ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد23، صفحہ125،126، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم