مضاربت  سے ہونے والے منافع  کو باہم تقسیم کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر تجارت میں ایک کا پیسہ اور  ایک کا کام ہو تو منافع آدھا آدھا کر سکتے ہیں ؟

سائل:قاری ماہنامہ فیضانِ مدینہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     تجارت میں ایک کا پیسہ اور دوسرے کا کام ہو، اسے فقہی اصطلاح میں” مُضارَبَت“کہتے ہیں۔ مُضارَبَت میں نفع کا تناسب برابر رکھنا کہ دونوں کو آدھا آدھا ملے جائز ہے اس میں حرج نہیں۔البتہ نفع کی جو بھی مقدار مقرر کی جائے وہ فیصد(مثلا آدھا ، تہائی ، چوتھائی وغیرہ ) کے اعتبار سے ہو،رقم وغیرہ فکس نہ کی جائے ۔بہت سے لوگ نفع کی ایک متعین مقدار فکس کردیتے ہیں کہ مجھے نفع میں سے مثلاً دس ہزار روپے  دے دینا  وغیرہ۔اس طرح کرنے سے مُضارَبَت فاسد ہوجاتی ہےاور یہ ناجائز و گناہ بھی ہے لہٰذا اس صورت میں فریقین پر لازم ہوگا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچّی توبہ کریں اور اس  عقدِ فاسد کو فَسْخ یعنی ختم کردیں ۔

     نیز مُضارَبَت کی جو صورتیں اس وقت مارکیٹ میں رائج ہیں ان میں مزید ایک خرابی یہ پائی جاتی ہے کہ کام کرنے والے پر نقصان کی شرط لگادی جاتی ہے کہ اگر نقصان ہوا تو اس میں سے اتنا نقصان تمہیں  بھرنا پڑےگا۔یہ شرط بھی  ناجائز و گناہ  ہے البتہ اس کی وجہ سے مُضَارَبَت فاسد نہیں ہوگی بلکہ خود یہ شرط ہی  باطل و بے اَثَر  رہےگی۔  اس لئے کہ شرعی اُصول و قواعِد کی رُو سے کام کرنے والا اپنی تَعَدِّی و کوتاہی سے جونقصان کرے اس کا تو ذمّہ دارہے،  اس کے علاوہ کسی نقصان کا وہ ذمہ دار نہیں ۔لہٰذا اگر کاروبار میں نفع ہونے کے بجائے نقصان ہوگیا تو یہ سارا نقصان مال والے کا ہوا،وہ اس پر کام کرنے والے سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔

     مَدَنی مشورہ :مضاربت وغیرہ کوئی کام شروع کرنے سے پہلے دارالافتاء اہلِ سنّت یا کسی مُعْتَمَد سُنّی ماہِر عالمِ دین کی بارگاہ میں اپنا طریقۂ  کار بیان کرکے لازماً شرعی رہنمائی حاصل کرلیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم