Paise Aur Dukan Dekar Aqd e Muzarbat Ki Sharai Haisiyat

پیسے اور دکان دے کر عقد مضاربت کی شرعی حیثیت

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0056

تاریخ اجراء:27صفر المظفر1445ھ12ستمبر3 202ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ اس طرح کام کرنا چاہتا ہے کہ دوکان بھی میری ہوگی اور پیسے بھی میں دوں گا ،تم میری دکان میں کریانہ کا کام کرو۔ جو شخص دکان دے  رہا ہے وہ اس دکان کا  کوئی معاوضہ (Compensation)  نہیں لے گا۔ دکان دینےکی غرض (Purpose)یہ ہے  کہ دوسری دکان کرایہ وغیرہ پرنہ  لینی پڑے   اور   راس المال (Capital)  کی بچت ہوسکے۔نفع کے متعلق  اس طرح طے کرناہے کہ جو بھی نفع ہوگا   اس  کے تین حصے کریں گے، دو حصے کام کرنے والے کےہوں گے، اور ایک تہائی (One-third) مال  اور  دوکان کا مالک  رکھے گا ۔

   کیا  یہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے کاروبار کیا جا سکتا ہے؟کیا  مال کے ساتھ دکان لینا اور پھر  کام کرنے والے کا نفع  زیادہ رکھنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایک طرف سے صرف رقم کے ذریعے انویسٹمنٹ (Investment) ہو ، دوسری طرف سےانویسٹمنٹ کے بغیر محض کام ہواس طرح کاروبار کرنا، شریعت مطہرہ میں عقد مضاربت کہلاتا ہے۔

   قوانین شرعیہ کی روشنی میں پوچھے گئے طریقہ کار کے مطابق  کاروبار کرنا، ایک تہائی (One-third) اور دو تہائی کے اعتبار سے نفع کا تعین کرنا ، جائز ہے، اور بلا معاوضہ (Free of Cost) دکان ساتھ دینے سے اس  معاہدہ پر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

   مضاربت کی تعریف کے متعلق درمختار میں ہے:”شرعا (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب“ یعنی شرعی طور پر مضاربت یہ ہے کہ ایک  یعنی رب المال کی جانب سےمال ہو، دوسری  یعنی مضارب کی جانب سے کام ہو  ، اور نفع دونوں     میں مشترک ہو۔)در مختار،جلد5،صفحہ645،دار الفکر،بیروت(

   در مختار میں مضاربت کی شرائط کے بیان میں  ہے:”(كون الربح بينهما شائعا)فلوعين قدرا فسدت“ یعنی (مضاربت میں شرط ہے کہ) نفع   دونوں میں مشترک ہو ۔اگر  نفع مقدار کے اعتبار سے معین کیا  تو مضاربت  فاسد ہو جائے گی۔(در مختار،جلد5،صفحہ648،دار الفکر،بیروت)

   دو تہائی اور ایک تہائی کے اعتبار سے نفع کی تقسیم کاری   جیسا کہ اس معاہدہ میں کی  جا رہی ہےجائز ہے۔ بہار شریعت میں ہے:”نفع دونوں کے مابین شائع ہو یعنی مثلاًنصف نصف یا دوتہائی ایک تہائی یا تین چو تھائی ایک چوتھائی، نفع میں اِس طرح حصہ معیّن نہ کیا جائے جس میں شرکت قطع ہوجانے کا احتمال ہو مثلاً یہ کہہ دیا کہ میں سو 100 روپیہ نفع لوں گا۔ اِ س میں ہوسکتا ہے کہ کل نفع سو ہی ہویا اس سے بھی کم تو دوسرے کی نفع میں کیوں کر شرکت ہوگی یا کہہ دیا کہ نصف نفع لوں گا اور اُس کے ساتھ دس10 روپیہ اور لوں گا،  اِس میں بھی ہوسکتا ہے کہ کل نفع دس10 ہی روپے ہوتو دوسرا شخص کیا پائے گا۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ2،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بلا عوض کسی شخص کو اپنی چیز کی منفعت کا مالک  کردینا عاریت ہے۔ بہار شریعت میں ہے:”دوسرے شخص کو چیز کی منفعت کا بغیر عوض مالک کردینا عاریت ہے۔“ (بہار شریعت،جلد3،صفحہ54،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہے :مالک نے اپنے غلام اور اپنے جانور مضارِب کو بطور اِعانت سفر میں لے جانے کے لیے دے دیے اس سے مضاربت فاسد نہیں ہوگی اور غلاموں اور جانوروں کے مصارِف مضارِب کے ذمّہ ہیں مضارَبت سے ان کے اخراجات نہیں دیے جائیں گے اور مضارِب نے مال مضاربت سے ان پر صرف کیا تو ضامن ہے مضارِب کو نفع میں سے جو حصہ ملے گا اُس میں سے یہ مصارف منھا ہوں گےاور کمی پڑے گی تو اُس سے لی جائے گی اور مصارف سے کچھ بچ رہا تو اُسے دے دیا جائے گا ہاں اگر رب المال نے کہہ دیا کہ میرے مال سے ان پر صرف کیا جائے تو مصارف اُسی کے مال سے محسوب ہوں گے۔(بہار شریعت،جلد3،صفحہ23،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم