Janwar Mein Investment Ka Sharai Tareeka Kya Hai ?

جانور میں انوسٹمنٹ کا شرعی طریقہ؟

مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1442

تاریخ اجراء:21 صفرالمظفر1440ھ/31اکتوبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں لوگ دوسروں کو پالنے کے لیےجانور دیتے ہیں اورطے یہ ہوتا ہے کہ  جب اس جانور کے بچے ہوجائیں،تو وہ ان دونوں کے مشترک ہوں گے، یعنی آدھے آدھے تقسیم ہوں گے ۔یہ مسئلہ یہاں میں نے علماء سے پوچھا ہوا تھا ،تو میں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ناجائز ہے،تو وہ سب مجھ سے تقاضا کررہے ہیں کہ ناجائز ہے،تو لکھا ہوا  لے کر آؤ۔نیز مفتی صاحب اگر اس میں کوئی جائز طریقہ ہے،تو وہ بھی بتادیں تاکہ اس کے مطابق عمل کریں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جانور کو پالنے کے لیے سوال میں مذکور طریقہ کار کے مطابق دینا ،ناجائز وگناہ ہے،کیونکہ جانور دونوں کا مشترک نہیں ہے،بلکہ جانور کا مالک ایک شخص ، جبکہ  پالنے والا ،نگہداشت کرنے والا دوسر اشخص ۔ شرعی اصولوں کے مطابق یہ اجارہ فاسدہ ہے اوراس صورت میں پالنے والے کو اپنی ملکیت سے کھلائے گئے چارے کی قیمت اور اجرت مثل ( جو عموما اس طرح کے کام پراجرت دی جاتی ہے)ملے گی اورجتنے بچے پیدا ہوں گے، وہ سب جانور کا مالک لے گا ۔

    اس کے جائز ہونے کی صورت یہ ہے کہ جانورکا مالک جانوركا آدھا حصہ ،پالنے والے شخص کو ایک معین رقم پر فروخت کردے اور رقم کی ادائیگی کی مدت طے کرلے مثلا ً: جانورکا نصف دوسرے کو بیس ہزار روپے میں بیچ دیا اور بیس ہزار کی ادائیگی چھ مہینے بعد وہ کرے گا (اگر جانور کا مالک چاہے،تو اپنی مرضی سے  یہ رقم بعد میں معاف بھی کرسکتا ہے)تو یوں  جانور دونوں کے درمیان مشترک ہو جائے گا، اس صورت میں وہ  جانور اور اس کے پیدا ہونے والے بچے سب دونوں کے درمیان مشترک ہوں گےاور یہ آدھے آدھے جانور تقسیم کرلیں گے،یہ طریقہ اختیار کرنے سے دونوں کامقصود حاصل ہوجائے گا ،جبکہ سوال میں مذکور طریقہ کار جو عموما رائج ہے، وہ ناجائز وگناہ ہے ۔

    فتح القدیرمیں ہے:’’إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقرة وله على صاحب البقرة ثمن العلف وأجر مثله، وعلى هذا إذا دفع الدجاج ليكون البيض بالنصف‘‘ ترجمہ: جب کوئی کسی کوگائے دے کہ وہ اسے پالے تاکہ جوبچے پیداہوں،وہ آپس میں برابربرابرتقسیم کرلیں ،توپیداہونے والے سارے بچے گائے کے مالک کے ہوں گے اورپالنے والے کوگائے کے چارے کی قیمت اوراس کے عمل کی اجرت مثل ملے گی اوراسی اصول پریہ صورت ہے کہ جب کوئی مرغی دے اس طورپرکہ انڈے آدھے آدھے تقسیم کیے جائیں گے۔

                 (فتح القدیر،جلد06،صفحہ421،دارالفکر،بیروت)

    فتاوی عالمگیری میں ہے:”دفع بقرۃ إلی رجل علی أن یعلفھا و ما یکون من اللبن والسمن بینھما أنصافا فالإجارۃ فاسدۃ و علی صاحب البقرۃ للرجل أجر قیامہ وقیمۃ علفہ إن علفھا من علف ھوملکہ  و الحیلۃ فی جوازہ أن یبیع نصف البقرۃ منہ بثمن و یبرئہ عنہ ثم یأمر بإتخاذ اللبن و المصل فیکون بینھما“ ترجمہ: ایک شخص نے دوسرے کو گائے اس طور پر دی کہ وہ گائے کو چارہ کھلائے گا اور جو دودھ اور گھی حاصل ہو گا وہ دونوں میں مشترک ہو گا ،تو یہ اجارہ فاسده ہے، اس صورت میں گائے کے مالک پر اس کے رکھنے اور چارہ کھلانے کی اجرت دینا لازم ہو گا،جبکہ دیکھ بھال کرنے والا اپنی  مِلک میں سے اس کو چارہ کھلائے ۔ ۔ ۔  اس کے جواز کا حیلہ یہ ہے کہ مالک اس شخص کو آدھی گائے کچھ ثمن کے بدلے  بیچ دے اور اس کو ثمن سے بری کر دے، پھر اس شخص کو دودھ، گھی اور لسی وغیرہ حاصل کرنے کی اجازت دے دے،تو اس صورت میں وہ گائے دونوں میں مشترک ہو جائے گی۔

 (فتاوی عالمگیری،جلد4،صفحہ504 ،مطبوعہ کراچی )

    صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”گائے، بھینس خرید کر دوسرے کو دیدتے ہیں کہ اسے کھلائے، پلائے، جو کچھ دودھ ہوگا، وہ دونوں میں نصف نصف تقسیم ہوگا،یہ اجارہ بھی فاسد ہے۔کُل دودھ مالک کا ہے اور دوسرے کو اس کے کام کی اجرتِ مثل ملے گی اور جوکچھ اپنے پاس سے کھلایا ہے،اس کی قیمت ملے گی اور گائے نے جوکچھ چراہے، اس کا کوئی معاوضہ نہیں اور دوسرے نے جوکچھ دودھ صرف کرلیا ہے، اتنا ہی دودھ مالک کو دے کہ دودھ مثلی چیز ہے۔‘‘

 (بھارشریعت، جلد 3، حصہ 14،صفحہ150 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    اس کے جواز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”اس کے جواز کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ گائے، بکری، مرغی وغیرہ میں آدھی دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اب چونکہ ان جانوروں میں شرکت ہو گئی، بچے بھی مشترک ہوں گے۔‘‘

(بھار شریعت، جلد 2،حصہ 10،صفحہ 512،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم