Janwaron Mein Mudarbat Karna Kaisa?

جانوروں میں مضاربت کرنا کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0064

تاریخ اجراء:21صفر المظفر1445ھ/08ستمبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جانوروں میں مضاربت کرنا کیسا؟پیسے میرے ہوں گے باقی تمام چیزوں کا انتظام  (Arrangement)دوسرا کرے گا،جانور بیچ کر جو نفع ہوگا دونوں آدھا آدھا تقسیم کریں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی اصولوں کے مطابق جانوروں کی خریدوفروخت میں مضاربت کرنا، جائزہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مضاربت میں راس المال(Capital) یعنی انویسٹر (Investor) کی طرف سے دیا جانے والاسرمایہ نقدی یعنی کیش (Cash) کی صورت میں ہو۔ آپ مضارب کو اپنی طرف سے جانور خرید کر مضاربت کے لئے نہیں دیں گے بلکہ نقد رقم دیں گے ، مضارب آپ کی دی ہوئی رقم سے جانورخریدے گا۔ نیزآپ کی دی ہوئی مضاربت ہی کی رقم  سے جانورکی دیکھ بھال وغیرہ ضروری اخراجات بھی کرے گا، پھران جانوروں کوفروخت کرکے اولاً آپ کی دی ہوئی رقم الگ کی جائے گی اس کے بعدبچ جانے والی رقم نفع کی ہوگی جوہرشریک کواس کے طے شدہ حصوں کے مطابق نصف، نصف دی جائے گی۔

   یادرہے مضاربت میں نقصان کا اصول  (Rule)یہ ہے کہ  کام کرنے والے کی لاپرواہی (Carelessness)  کے بغیر نقصان ہو جائے ،تو نفع سے پورا کیا جاتا ہے اور اگر نقصان نفع سے زیادہ ہو،تو ایسی صورت میں مالی نقصان ، مال والے کا ہوتا ہے، کام کرنے والے کی محنت ضائع    ہو جاتی ہے۔

   مال مضاربت کا از قبیل ثمن ہونا ضروری ہےجیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:”(منها) أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير “ یعنی:مضاربت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ راس المال از قبیل دراہم و دنانیر ہو ۔(بدائع الصنائع،جلد6،صفحہ82، دار الكتب العلمية،بیروت)

   درمختار میں ہے:’’(وياخذ المالك قدر ما انفقه المضارب من راس المال ان كان ثمة ربح، فان استوفاه  و فضل شىء) من الربح (اقتسماه) على الشرط،لان ما انفقه يجعل كالهالك، والهالك يصرف الى الربح كما مر.(وان لم يظهر ربح فلا شىء عليه) اى المضارب‘‘یعنی: اگرمضاربت میں نفع ہوتومالک اتنا مال لے لے گا جتنا مضارب نے راس المال میں سے خرچ کیا ،جب راس المال مکمل ہوجائے اور کچھ مال بچ جائے جو کہ  حقیقت میں نفع  ہے تو وہ دونوں اس کو طے شدہ فیصد کے حساب سے تقسیم کرلیں ،کیونکہ مضارب نے مال مضاربت سے جو کچھ خرچ کیا وہ ہلاک ہونے والےمال کی مثل ہے،اور ہلاک ہونے والے مال کو نفع کی طرف پھیرا جاتا ہےجیساکہ پہلے مسئلہ گزر چکا۔اور اگر نفع ظاہر نہ ہوتو مضارب پر کچھ نہیں ہے۔(الدرمختار مع رد المحتار،جلد8،صفحہ517، بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے،وہ اپنی تعدی ودست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ، جو نقصان واقع ہو سب صاحب مال کی طرف رہے گا۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ،جلد19،صفحہ131،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

بہارشریعت میں ہے: ’’جو کچھ نفع ہوا پہلے اس سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں گے جو مضارب نے راس المال سے کیے ہیں، جب راس المال کی مقدار پوری ہوگئی، اُس کے بعد کچھ نفع بچا، تو اُسے دونوں حسب شرائط تقسیم کرلیں اور نفع کچھ نہیں ہے تو کچھ نہیں۔“(بهارشریعت،جلد3،صفحہ25،مکتبۃ المدینہ کراچی)

   نوٹ:مضاربت کی مزید بنیادی معلومات حاصل کرنے کے لئے IEC کی ویب سائٹ پر موجود مختصر پمفلٹ (Pamphlet) ’’مضاربت اور اس کے ضروری احکام‘‘ کا مطالعہ کر لیں ۔ یہ پمفلٹ درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جا  سکتا ہے ۔

https://www.daruliftaahlesunnat.net/fatawa_tasheer/ur/1088

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم