نابالغ بچے کا بے وضو قرآنِ پاک چھونا کیسا ؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7009

تاریخ اجراء:29ذیقعدہ1441ھ/ 21جولائی2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عمومامساجدمیں صبح وشام محلے کے چھوٹے نابالغ بچے قرآن پڑھنے آتےہیں اوروضو کاطریقہ سمجھانے کے باوجودصحیح ومکمل وضو نہیں کرپاتے اوریونہی قرآن یاسپارےپکڑ لیتے ہیں،توکیاان کابے وضوقرآن یاسپارے پکڑنا،جائزہے یانہیں؟نیزبچوں کوبےوضو قرآن دینے پرقاری صاحب گنہگارہوں گے یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جو چھوٹے نابالغ بچے صبح وشام ناظرہ قرآن پڑھنے کے لیے مساجد میں آتے ہیں،انہیں قرآن دینے سے پہلے وضو کراناچاہیے تاکہ انہیں وضو کاطریقہ آئے اوراس کی عادت بنے،البتہ ان پروضو کرنافرض نہیں ہے،بے وضوبھی قرآن کوچھو سکتے ہیں،کیونکہ یہ ابھی احکامِ شرع مثلا:وضو،غسل ،نماز و روزے کے مکلف نہیں اوراگربے وضو ہونے کی وجہ سے قرآن چھونے سے منع کیا جائے ،تو یہ بچپنے کی وجہ سے وضو کرنے میں سستی کریں گے اورلا محالہ بالغ ہونے تک قرآن پڑھنے اور یاد کرنے کو مؤخرکریں گےاور اگر ان کے بالغ ہونے کاانتظارکیاجائے ،توپھر قرآن پڑھنے، حفظ کرنے میں کمی واقع ہوگی، جس بِناپرشریعت نے بچوں کو بے وضوقرآن چھونے کی رخصت دی ہے۔قاری صاحب یاسرپرست کوچاہیے کہ بچے کووضو کرواکرقرآن دیں،لیکن اگربے وضو بھی قرآن پکڑادیا،توبھی قاری صاحب وغیرہ پرکوئی گناہ نہیں۔

    نابالغ کوبے وضوقرآن چھونے کی اجازت کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے:”ولا مس صبي لمصحف ولوح لأن في تكليفهم بالوضوء حرجا بها  وفي تأخيره إلى البلوغ تقليل حفظ القرآن فرخص للضرورة“ ترجمہ:نابالغ بچے کاقرآن یاجس تختی پرقرآن لکھاہو،اسےچھونامکروہ نہیں ،کیونکہ بچوں کو وضو کامکلف بنانا،انہیں مشقت میں ڈالناہے اورقرآن پڑھنے کوبلوغت تک مؤخرکرنے میں حفظ ِ قرآن میں کمی واقع کرناہے ،لہذاضرورت کی بناپر نابالغ بچوں کورخصت دی گئی ہے۔

(مجمع الانھر،کتاب الطھارۃ،ج01،ص26،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)

    تبیین الحقائق میں ہے:”وکرہ بعض أصحابنا دفع المصحف واللوح الذی کتب فیہ القرآن الی الصبیان ولم یر بعضھم بہ بأسا وھو الصحیح لأن فی تکلیفھم بالوضوء حرجا بھم وفی تأخیرھم الی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فیرخص للضرورة“ ترجمہ:ہمارے بعض اصحاب نے قرآن پاک اور وہ تختی جس پر قرآن لکھا ہو ،بچوں کو دینے کو مکروہ قرار دیا ہے اوربعض نے اس میں کوئی حرج نہ جانااوریہی صحیح ہے،کیونکہ بچوں کو وضو کا مکلف بنانے میں حرج ہے اوراگران کے بالغ ہونے تک قرآن انہیں  نہ دیا جائے، تو حفظِ قرآن میں کمی واقع ہوگی، لہٰذا بوجہ ضرورت بچوں کو قرآن پاک دینے کی رخصت دی گئی ہے ۔

(تبیین الحقائق،کتاب الطھارة، باب الحیض، ج1،ص58،مطبوعہ  دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

    بچوں کے بے وضوقرآن پکڑنے پرقاری صاحب کے گنہگارنہ ہونے کے بارے میں علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:” أن الصبی غیر مکلف والظاھر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس“ترجمہ:کیونکہ نابالغ غیرمکلف ہے اورظاہراس سے مرادیہ ہے کہ اگربچے کاسرپرست اسے قرآن چھونے دے ،توسرپرست کے لیے بھی مکروہ نہیں۔

(ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب سنن الغسل، ج1،ص174،مطبوعہ  دار الفکر)

    نابالغ کوقرآن دینے سے پہلے وضوکرانے کے بارے میں  صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”نابالغ پر وُضو فرض نہیں،مگر ان سے وُضو کرانا چاہیے، تاکہ عادت ہو اور وُضو کرنا آجائے اور مسائلِ وُضو سے آگاہ ہو جائیں۔“

(بہارشریعت، ج10،ص302، مطبوعہ مکتبة المدینہ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم