شرعی معذور کسے کہتے ہیں؟

مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web:13

تاریخ اجراء: 09ربیع الثانی 1442 ھ/25نومبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طہارت اورنماز کے معاملے میں شرعی معذور کون ہوتا ہے اور اس کے کیا احکام ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرعی معذوروہ شخص ہوتا ہے کہ جس پرایک نماز کا اول سے آخرتک پورا وقت ایسا گزرجائے کہ اس پورے وقت میں وضو توڑنے والی کوئی چیز مثلا ریح کا خارج ہونا،اس طرح مسلسل پایا جائے کہ اسے اتنا وقت بھی نہ ملے کہ وہ وضو کرکے فرض ادا کرسکے،ایسی صورت میں یہ شرعی معذورکہلائے گا ،اوراس کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز کے ایک وقت میں وضو کرے ،اب وضوتوڑنے والی وہ چیز جو مسلسل پائی جارہی ہے ،اس کے آنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ،اور یہ اسی ایک وضو سے ہی اس وقت میں نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے ۔جب اس نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اوراب اگلی نماز کے وقت میں دوبارہ وضو کرناہوگا ،اسی طرح ہرنماز کے وقت میں ایک وضو کرنا ہوگا۔نیز جب ایک مرتبہ یہ شرعی معذورہوگیا تو اب ہرنماز کے وقت میں اگرایک مرتبہ بھی وہ چیز پائی گئی جس کی وجہ سے وہ شرعی معذوربنا تھا تو تب ہی یہ شرعی معذوررہے گا ،البتہ اگر ایک نماز کا پورا وقت ایسا گزرگیا کہ یہ جس چیز کی وجہ سے شرعی معذوربناتھا وہ چیز ایک مرتبہ بھی نماز کے پورے وقت میں نہ پائی گئی تو اب یہ شرعی معذورنہیں رہے گا ،اب جب بھی وضو توڑنے والی چیز پائی جائے گی ،اسے نئے سرے سے وضو کرنا لازم ہوگا۔

بہارشریعت میں ہے:” ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے ،اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارِج ہونا، یا دُکھتی آنکھ سے پانی گرنا، یا پھوڑے، یا ناصور سے ہر وقت رطوبت بہنا، یا کان، ناف، پِستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وُضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکاتو عذر ثابت ہوگیا۔ “

(بہارشریعت جلد1،حصہ2،صفحہ385،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

مزید اسی میں فرمایا:” جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا، مثلاً عورت کو ایک وقت تو اِستحاضہ نے طہارت کی مہلت نہیں دی اب اتنا موقع ملتا ہے کہ وُضو کرکے نماز پڑھ لے مگر اب بھی ایک آدھ دفعہ ہر وقت میں خون آجاتا ہے تو اب بھی معذور ہے۔ یوہیں تمام بیماریوں میں اور جب پورا وقت گزر گیا اور خون نہیں آیاتو اب معذورنہ رہی جب پھر کبھی پہلی حالت پیدا ہو جائے تو پھر معذور ہے اس کے بعد پھر اگر پورا وقت خالی گیا تو عذر جاتا رہا۔

(بہارشریعت جلد1،حصہ2،صفحہ385،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم