دھوبی مسلم و غیر مسلم کے کپڑے ایک ساتھ دھوئے تو ان کا حکم؟

مجیب:مولانا سرفراز مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5720

تاریخ اجراء:15جمادی الاول1441ھ/11جنوری2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ ہم جس علاقے میں ر ہتے ہیں ، وہاں غیر مسلم کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہیں اورایک ہی دھوبی سے مسلمان و غیر مسلم کپڑے دھلواتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح ہمارے کپڑے پاک رہیں گے یا ناپاک ہو جائیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسلمانوں کے کپڑوں کے ساتھ کافروں کے کپڑے دھوئے جائیں ، تو کوئی حرج نہیں،کپڑے پاک رہیں گے۔محض کافروں کے کپڑوں کے ساتھ دھلنے کی وجہ سے ان کی ناپاکی کا حکم نہیں دیا جائے گا کہ غیر مسلموں کے کپڑوں کے بارے میں ناپاک ہونے کا یقین  حاصل نہیں، محض شک و گمان ہے اور شریعت مطہرہ میں طہارت اصل ہے اورنجاست عارض، لہذا نجاست کے ثبوت کے لیے کسی  دلیل کا ہونا ضروری ہے۔محض شک و گمان سے نجاست کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ طہارت کے اصل ہونے کی وجہ سے اس کے موجود ہونے کا جو یقین حاصل تھا،اس یقین کے ختم ہونے کے لیے بھی اسی کی مثل نجاست کا یقین درکار ہوگا۔اسی وجہ سے کفار و فساق کے کپڑوں میں جب تک نجاست کا موجود ہونا یقین سے معلوم نہ ہو،فقہائےکرام بغیر دھوئے نماز پڑھنے کو درست قرار دیتے ہیں،حالانکہ کفار کی بے احتیاطیاں کس کو نہیں معلوم کہ وہ نہ تو استنجاء کا اہتمام کرتے ہیں،نہ پیشاب و شراب وغیرہما نجاسات سے بچتے ہیں،لیکن ان سخت بے احتیاطیوں کے باوجود کپڑے کی نجاست کا چونکہ محض گمان ہی ہے،یقین نہیں ،جبکہ اصل ہونے کی وجہ سے طہارت کا یقین ہے،اس وجہ سے فقہائے کرام نے کفار کے کپڑوں کے نجس ہونے کا حکم نہیں دیا اور دھوئے بغیر ان کو پہن کر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔

    الاشباہ والنظائر میں ہے:’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ.‘‘ ترجمہ :نجاست کے پائے جانے میں شک ہو،تو اصل طہارت کا باقی رہنا ہے۔

                                             (الاشباہ و النظائر،صفحہ 61،مطبوعہ کراچی)

    درمختارمیں ہے:’’ولو شک فی نجاسۃ ماء أو ثوب أو طلاق أو عتق لم یعتبر ‘‘ ترجمہ :اگر پانی یا کپڑےکے نجس ہونے میں یاطلاق یا آزادی کا شک ہوا،تو یہ معتبر نہیں۔

(در مختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(ولو شک)فی التاتر خانیۃ: من شک فی انائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فھو طاھر ما لم یستیقن،و کذا لآبار والحیاض والحباب الموضوعۃ فی الطرقات و یستقی منھا الصغار و الکبار والمسلمون والکفار ‘‘ ترجمہ :مصنف علیہ الرحمۃکاقول:(اور اگر شک ہو) تاتارخانیہ میں ہے:جسےاپنے برتن،کپڑے،یا بدن کے بارے میں شک ہو کہ اسے نجاست لگی ہے یا نہیں ؟ تو وہ پاک ہے جب تک یقین نہ ہواور اسی طرح کنویں،حوض اور وہ گھڑے جو راستوں میں رکھے جاتے ہیں اور ان سے بچے،بڑے،مسلمان اور کفار پانی بھرتے ہیں ( پاک ہیں ) ۔

(رد المحتار مع الدر المختار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ شریعتِ مطہرہ میں طہارت وحلت اصل  ہیں اور ان کا ثبوت خود حاصل کہ اپنے اثبات میں کسی دلیل کا محتاج نہیں اور حرمت ونجاست عارضی کہ ان کے ثبوت کو دلیل خاص درکار اور محض شکوک وظنون سے ان کا اثبات ناممکن کہ طہارت وحلت پر بوجہ اصالت جو یقین تھا اُس کا زوال بھی اس کے مثل یقین ہی سے متصور ، نراظن لاحق یقین سابق کے حکم کو رفع نہیں کرتا یہ شرع شریف کا ضابطہ عظیمہ ہے ، جس پر ہزارہا احکام متفرع۔‘‘            (فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ476،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ کسی شے کا محل احتیاط سے دور یا کسی قوم کا بے احتیاط وشعور اور پروائے نجاست وحرمت سے مہجور ہونا، اسے مستلزم نہیں کہ وہ شے یا اُس قوم کی استعمالی خواہ بنائی ہوئی چیزیں مطلقاً ناپاک یا حرام وممنوع قرار پائیں کہ اس سے اگر یقین ہُوا، تو اُن کی بے احتیاطی پر اور بے احتیاطی مقتضی وقوع دائم نہیں، پھر نفس شے میں سو اظنون وخیالات کے کیا باقی رہا جنہیں امثال مقام میں شرع مطہر لحاظ سے ساقط فرماچکی تامل کرو کس قدر معدن بے احتیاطی بلکہ مخزن ہرگونہ گندگی ہیں کفار خصوصاً ان کے شراب نوش کے کپڑے علی الخصوص پاجامے کہ وہ ہرگز استنجاء کا لحاظ رکھیں نہ شراب پیشاب وغیرہما نجاسات سے احتراز کریں پھر علماء حکم دیتے ہیں کہ وہ پاک ہیں اور مسلمان بے دھوئے پہن کر نماز پڑھ لے، تو صحیح وجائز جب تک تلوث واضح نہ ہو۔فی الدرالمختار ثیاب الفسقۃ واھل الذمۃ طاھرۃ  وفی الحدیقۃ سراویل الکفرۃ من الیھود والنصاری والمجوس یغلب علی الظن نجاستہ لانھم لایستنجون من غیر ان یأخذ القلب بذلک فتصح الصلاۃ فیہ لان الاصل الیقین بالطھارۃ ۔ (درمختار میں ہے :فساق اور ذمیوں کے کپڑے پاک ہیں اور حدیقہ ندیہ  میں  ہے :یہود ،نصاریٰ ،مجوسی وغیرہ کفار کی شلواریں جن کے نجس ہونے کا غالب گمان ہو کہ وہ استنجاء  نہیں کرتے ،ان میں نماز پڑھنا صحیح ہے بغیر اس کے کہ دل اس کو قبول کرے ،کیونکہ اصل طہارت کا یقین ہے ۔) ملخصاً ‘‘

                  (فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ490،483،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) 

    یہ تمام تر تفصیل پاکی ،ناپاکی کے اعتبار سے تھی کہ کفار کے کپڑے ساتھ دھلنے سے محض شک کی وجہ سے مسلمانوں کے کپڑوں کو ناپاک نہیں سمجھا جائے گا،باقی رہی یہ بات کے مندوب و مستحسن کیا ہے؟دھوبی کو دونوں کپڑے  کیا ایک ساتھ دھونے چاہیئں؟تو اس بارے میں مقاصد شرع کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ جواب دیا جائے گا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے اورجس جس  کا کافر ہونا معلوم ہو،دھوبی کو چاہئے اس کے کپڑے جدا رکھے اور مسلمانوں کے کپڑوں کے ساتھ ملا کر نہ دھوئے، کیونکہ فقہائے کرام نے کافروں کے کپڑوں کو پاک قرار دینے کے باجود، موضع نجاست کے قریب ہونے کی وجہ سے  بلا دھوئے ان کی شلواروں،پاجاموں اور تہبندوں میں نماز پڑھنے کو مکروہ و ناپسند قرار دیا ہے،بلکہ کافر کا جھوٹا جو کہ فی نفسہ پاک ہے،احادیث کی روشنی میں اس سے  بھی بچنے کا حکم دیا ہے اور الحمد للہ عزوجل مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی کفار کے متعلق طبعی نفرت موجود ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھانے،پینے، یونہی ان کا جھوٹا استعمال کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، بلکہ جس برتن میں انہوں نے کھایا  ہو،بلا دھوئے اس کے استعمال سےبھی پرہیز کرتے ہیں،یہ بلا شبہ مندوب و مستحسن اور شریعت کو مطلوب ہے کہ اس طرح  وہ کفار کی صحبت و مودت(دوستی) سے بچیں گے اور کفر و گمراہی سے محفوظ رہیں گے،لہذا صورت مستفسرہ میں کئی وجوہات کی بناء پر دھوبی  کو استحباباً  یہ  حکم دیا جائے گا کہ وہ کفار کے کپڑے الگ رکھے،الگ دھوئے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی  دھوبی سے اس چیز کا مطالبہ کریں اور اسے اس  کام پر آمادہ کریں۔

    رد المحتار میں ہے:’’لا بأس بلبس ثياب أهل الذمة والصلاة فيها، إلا الإزار والسراويل فإنه تكره الصلاة فيها لقربھا من موضع الحدث و تجوز لان الاصل الطھارۃ ‘‘ ترجمہ :کوئی حرج نہیں ذمیوں کے کپڑے پہننے  اور ان میں نماز ادا کرنے میں سوائے تہبند اور شلوار کے کہ اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، ان کے حدث کی جگہ کے قریب ہونے کی وجہ سے اور (بلا دھوئے پڑھنا)جائز ہے، کیونکہ پاکی اصل ہے۔

(رد المحتار مع الدرالمختار،جلد1،صفحہ398،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن  سے سوال ہوا کہ:’’جھوٹا ہندو یا نصرانی وغیرہ کا  پاک ہے یا ناپاک  اس  کے کھانے کا کیا حکم ہے ؟اگر کوئی  کافر سہواًیا قصداً  حقہ یا پانی پی  لے  تو اس کا کیا حکم ہے ؟‘‘اس کے جواب میں فرمایا :’’حکم اللہ ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کے لیے ہے ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  نصرانی کے کھانے سے ممانعت فرمائی۔  سنن ابی داود،جامع ترمذی  ومصنف ابو بکر  بن  ابی شیبہ  ومسند امام احمد  میں  ہلب رضی اللہ تعالیٰ  عنہ سے ہے :واللفظ لابی بکر  قال رایت  النبی صلی اللہ علیہ وسلم  نھی عن طعام النصاری  فقال لا یتخلجن  فی صدرک  طعام ضارعت فیہ نصرانیۃ ‘‘ ترجمہ : (الفاظ ابی بکر کے ہیں فرمایا :میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ طعام  نصرانی سے نہی فرمائی  اور ارشاد فرمایاکہ  زنہار تیرے سینے میں وہ  کھانا جنبش نہ کرے  جس میں نصرانیت  کا اشتراک ہو)ابو ثعلبہ خشنی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  انا  نغزو ارض العدو  فنحتاج الی آنیتھم  فقال استغنوا عنھا  مااستطعتم  فان لم تجد و اغیرھا فاغسلوھا  وکلو امنھا واشربو ا اوردہ الامام فی الجامع  وعزاہ لابن ابی شیبۃ اقول  قد رواہ  احمد والبخاری  ومسلم وابو داؤد  والترمذی وآخرون  وفی لفظ الترمذی  قال انقوھا غسلا (میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :ہم دشمن کے ملک میں جہا د کو جاتے ہیں  ان کے برتنوں کی حاجت پڑتی ہے،  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جہاں تک بن پڑے  ان برتنوں سے دور رہو اور اگر اور برتن نہ ملیں ،تو  انہیں دھو کر پاک کر لو  اس کے بعد ان میں کھاؤپیو۔امام نے اس کو جامع میں وارد کیا اور  ابن ابی شیبہ کی طرف منسوب کیا، میں کہتا ہوں  احمد، بخاری ،مسلم،ابو داؤد،ترمذی اور  دوسروں نے بھی اس کو روایت کیا ہے  اور ترمذی کا لفظ ’’فاغسلوھا‘‘ کی  جگہ ’’انقوھا غسلا‘‘ ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :’’ انماا لمشرکون نجس‘‘  کافر نرے  ناپاک ہیں۔یہ ناپاکی ان کے باطن کی ہے،  پھر اگر شراب وغیرہ نجاستوں کا اثر  ان کے منہ میں باقی ہو ، تو ناپاکی ظاہری بھی موجود ہے  اور اس وقت ان کا  جھوٹا  ایسا ہی ناپاک ہے جیسا  کتے کا ،بلکہ اس سے بھی بدتراور حقے وغیرہ جس چیز کو ان کا لعاب لگ جائے گا  ضرور ناپاک ہو جائے گی ۔ہنود نصاری  وغیرہم اکثر  شراب خور ہوتے ہیں اور مونچھیں بڑھانا ان کا شعار  اور شراب خور کی مونچھیں بڑی بڑی ہوں  کہ شراب مونچھ کو لگ گئی  تو جب تک مونچھ دھل نہ جائے گی  پانی وغیرہ جس چیز کو لگے گی  ناپاک کر دے گی  ۔اور اگر ظاہری نجاستوں سے بالکل جدا ہو  جس کی امید کا فروں سے بہت  کم  ہے تو اس کے جھوٹے کو  اگرچہ کا فر کے جھوٹے کی طرح صریح ناپاک نہ کہا جائے ۔اقول:مگر ہر چیز  کہ ناپاک نہ ہو  طیب وبے دغدغہ ہو نا ضرور نہیں،رینٹھ بھی تو ناپاک نہیں،  پھر کون عاقل اسے  اپنے لب وزبان سے لگانا گوارا کرے گا؟ کا فر کے جھوٹے سے بھی  بحمد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو  ایسی ہی نفرت ہے اور یہ نفرت  ان کے ایمان سے ناشی ہے۔  جو شخص  دانستہ  اس کا جھوٹا کھائے پیےمسلمان اس سے بھی نفرت کرتے ہیں  وہ مطعون ہو تا ہے  اس پرمحبت کفار کا گمان ہو جاتا ہے۔،تو دلائل شرعیہ واحادیث  صحیحہ سے ثابت ہو ا کہ کافر کے جھوٹے سے احتراز ضرور ہے ۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد2،صفحہ314تا319، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)    

    بہار شریعت میں ہے:’’آدمی چاہے جنب  ہو یا حیض نفاس والی عورت  اس کا جھوٹا پاک ہے ۔کافر کا جھوٹا بھی پاک ہے ،مگر اس سے بچنا چاہیے جیسے تھوک،رینٹھ،کھنکارکہ پاک ہیں، مگر  ان سے  آدمی گھن کرتا ہے،  اس سے بہت بدتر کافر کے جھوٹے  کو  سمجھنا چاہیے۔‘‘

(بھار شریعت،جلد1،صفحہ341، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم