سی جی ایم سینسر ( Glucose Meter ) لگا ہو تو غسل کا حکم؟

مجیب:مولانا ساجد مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: UK-75

تاریخ اجراء:20جمادی الاولی1442ھ/05جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ذیابیطس کے مریض کے لئے خون میں موجود گلوکوز کی مقدار پر نظر رکھنا نہایت اہم ہے۔گلوکوز کی مانیٹرنگ کے لئےعام طور پر گلوکوزمیٹر استعمال کیا جاتا ہے۔جس میں  ایک ٹیسٹ سٹرپ لگا ئی جاتی ہے اور اس پر خون کا قطرہ گرا کر مشین کے ذریعے گلوکوزکا لیول چیک کر لیا جاتاہے۔

    آج کل ایک جدید طریقہ آیا ہے۔وہ یہ کہ  ”سی جی ایم (Continuous Glucose Monitoring)“ ایک آلہ ہے، جس کی مدد سے گلوکوز کی مستقل مانیٹرنگ ممکن ہے۔ یہ آلہ جسم پر  عام طورپہ کہنی سے اوپر  بازو کی سطح پر چپکا دیا جاتا ہے۔یہ آلہ ایک باریک سے سینسر  کی مدد سے گلوکوز کا لیول چیک کرتا ہےاور وائرلیس ٹیکنالوجی کے ذریعے ریزلٹ ایک میٹر یا موبائل وغیرہ پر شو کر دیتا ہے۔ ہر ایک منٹ میں یا چند منٹ بعد یہ گلوکوز کا لیول چیک کرتا رہتا ہے،اور بتاتا رہتا ہے کہ گلوکوز لیول اوپر کو جا رہا ہے یا نیچے کو آرہا ہےاور اگلے بیس منٹ یا آدھے گھنٹے بعد کی  کیفیت کا اندازہ بھی بتا دیتا ہے۔یہ آلہ ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جن کو دن میں چھ سے آٹھ مرتبہ گلوکوز چیک کرنا پڑتا ہے۔اس میں الارم بھی سیٹ کر سکتے ہیں ، جو خون میں شوگر کے نہایت کم یا زیادہ ہو جانے پر مریض کو خبردار کرتا ہے۔ اس طرح ان مریضوں کی جان بچا ئی جا سکتی ہے ، جن کو سوتے ہوئے ہائپوگلائسیمیا (Hypoglycemia) ہو جائے ، کیونکہ یہ ایک خطرناک بات ہے جس سے مریض کی موت تک واقع ہو سکتی ہے۔

    سی جی ایم کو دن میں دو مرتبہ گلوکوزمیٹر سے خون میں گلوکوز چیک کر کے برابر (Calibrate) کرنا ضروری ہے تاکہ بالکل صحیح نمبر معلوم ہو سکیں ، کیونکہ اس سے حاصل ہونے والا رزلٹ گلو کوز میٹر سے کم درجے کا ہوتا ہے ، البتہ بعض نئے سی جی ایم کو اس طرح برابر کرنے کی ضرورت نہیں  ہوتی۔

    جب یہ سینسر جسم پر لگا ہو تو جسم پر پانی بہاسکتے ہیں ، لیکن جسم کے جتنےحصے پر یہ سینسر لگا ہے اتنے حصے کی جلد  تک پانی  نہیں پہنچ سکتا ، کیونکہ یہ جسم کے ساتھ مضبوطی سے چپکا ہوتا ہے۔اس کو اتارنے میں کوئی حرج یا مشقت کا سامنا نہیں ہوتا یعنی بآسانی اسے اتارا جا سکتا ہے ، لیکن اترنے کے بعد یہ دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اور اس کی قیمت بھی کافی زیادہ ہوتی ہے تقریبا بیس ہزار کے قریب اور عام طور پر اسے دس بارہ دن تک یا بعض کو چودہ دن تک نہیں اتاراجاتا۔

    اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا اس سینسر کو استعمال کر سکتے ہیں ؟ اگر کر سکتے ہیں ، تو غسل فرض ہونے کی صورت میں کیا اسے اتارے بغیر غسل کا فرض ادا ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سی جی ایم سینسر،جو ایک چھوٹا سا آلہ ہے،اسے جسم پر چپکانا فی نفسٖہ(اپنی ذات میں ) کوئی ناجائز یا گناہ  کی بات نہیں۔نابالغ بچے بچیوں کو لگانے میں اصلا حرج نہیں کہ غسل فرض ہونے کا معاملہ نہیں ہوتا، یونہی نفاس والی عورت لگائے تو نفاس ختم ہونے سے پہلے چونکہ غسل فرض نہیں تو اسے بھی لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ حائضہ عورت  لگائے اور ایامِ حیض کی حد تک لگائے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ عام مردو عورت لگائیں اور غسل فرض ہونے کی صورت مثلا احتلام وغیرہ نہ پایا جائے  تو بھی لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں ، یہی معاملہ کسی بوڑھے بڑھیا کے متعلق بھی ہوسکتا ہے ۔ صرف ایک صورت میں حرج ہے جس کاتعلق بنیادی طور پر سی جی ایم سینسر لگانے کے جواز و عدمِ جواز کے ساتھ نہیں ، بلکہ خارجی طور پر غسل کے مسئلے کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ اگر اس کے جسم پر لگے ہونے کی حالت میں غسل فرض ہوگیا ، تو اب اسے اتار کر غسل کرنا فرض  ہوگا  ورنہ غسل ادا نہیں ہوگا۔

    تفصیل کچھ یوں ہے کہ سوال میں بیان کردہ معلومات سے یہ بات واضح ہے کہ سی جی ایم سینسر نہ تو کوئی دوا ہے اور نہ اسے جسم پر لگانا علاج ہے،  بلکہ اس کامقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مرض کی کیفیت (یعنی گلوکوز کے لیول ) کا اندازہ ہوتا رہے اور گلوکوز کا لیول معلوم کرنے کا یہی ایک ذریعہ نہیں ہےاورنہ  ذیابیطس کے ہر مریض کو یہ  مشین استعمال  کرنے کی حاجت  ہوتی ہے ،  بلکہ عام طور پر گلوکوز میٹر وغیرہ کے ذریعے سے  ہی شوگر چیک کر لی جاتی ہے اوراس  کا رزلٹ  بھی  اس سینسر کے رزلٹ سے بہتر ہوتا ہے۔         ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ گلوکوز میٹر وغیرہ سے چیک کرنے میں  معمولی سی مشقت ہوگی اور اس سینسر کو لگانے میں وہ معمولی مشقت بھی نہیں ہوگی اور آٹو میٹک طریقے سے چیک ہونے کی وجہ سے مریض کو سہولت رہے گی۔ لہذاعمومی حالات میں یہ سینسر لگاناشرعی  حاجت یا ضرورت کے مرتبے تک نہیں پہنچتا ، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ منفعت  ، فائدہ یا سہولت کے درجے میں ہے۔

    اوردوسری طرف غسل فرض ہو تو سارے جسم پر پانی بہانا فرض ہوتا ہے ، حتی کہ سوئی کے سرے کے برابر بھی جسم کا معمولی سا  حصہ دھلنے سے رہ گیا ، تو فرض  غسل  ادا نہیں ہوگا۔اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں کہ جسم پر اگر کوئی ایسی چیز لگی ہوجو جسم  کی سطح تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہواور اسے جسم سے اتارنے میں حرج بھی   نہ ہوتا ہو  تو  غسل فرض ہونے کی صورت میں اسے جسم سے اتارنا لازم ہے ورنہ غسل   مکمل نہ ہوگا۔

    درمختار میں ہے :”يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج“ترجمہ: بدن کے جس جس حصے کو بغیر حرج کے دھونا ، ممکن ہے اسے (غسل فرض ہونے کی صورت میں )دھونا فرض ہے۔

 (درمختار ، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ152، دار الفکر، بیروت)

    منیہ اور اس کی شرح غنیہ میں ہے : ”ولو بقی شیئ من بدنہ لم  یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ  وان قل ای  ولو کان  ذلک الشیء قلیلا بقدر راس ابرۃ  ترجمہ: اگر اس کے بدن سے کچھ بھی حصہ رہ گیا جس پر پانی نہ پہنچ سکا تو وہ آدمی حالت جنابت سے باہر نہ ہوگا اگرچہ وہ حصہ سوئی کے سرے کے برابر تھوڑا  سا ہی  ہو ۔

(منیہ مع  غنیۃ، صفحہ 44، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی ہندیہ میں ہے :”ولو ألزقت المرأة رأسها بطيب بحيث لا يصل الماء إلى أصول الشعر وجب عليها إزالته ليصل الماء إلى أصوله كذافي السراج الوهاج“ترجمہ: اگر عورت نے اپنے سر پر خوشبو اس طرح  چپکائی ہے  کہ(اس کی وجہ سے ) پانی  بالوں کی جڑوں تک  نہیں پہنچتا  تو عورت پر واجب ہے کہ وہ  اسے اتارے تاکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ سکے۔ ایسا ہی السراج الوہاج میں ہے ۔

               (الفتاوى الهندية، جلد1، صفحہ 13، دار الفکر، بیروت)

    اسی طرح الجوہرۃ النیرہ میں ہے :” ولو كان على بدنه قشر سمك أو خبز ممضوغ متلبد وجب إزالته، وكذا الخضاب المتجسد والحناء “ترجمہ: اور اگر اس کے جسم پر مچھلی کا سِنّا یا چبائی ہوئی چپكنے والی روٹی  لگی ہو تو اسے زائل کرنا واجب  ہے ۔ اسی طرح جرم دار خضاب اور مہندی کا حکم ہے۔

           ( الجوهرة النيرة، جلد1، صفحہ 10، المطبعۃ الخیریۃ)

    امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:”یوں ہی اگر اُکھڑا ہُوادانت کسی مسالے مثلاً برادہ آہن ومقناطیس وغیرہ سے جمایاگیاہے جمے ہوئے چُونے کی مثل اس کی بھی معافی چاہئے۔اقول لانہ ارتفاق مباح وفی الازالۃ حرج(اقول :کیونکہ یہ انتفاع و علاج مباح ہے اور زائل کرنے میں حرج ہے۔)ہاں اگر کمانی چڑھی ہو جس کے اتارنے چڑھانے میں حرج نہیں اور پانی بہنے کو روکے گی تو اتارنا لازم ہےغرض مدار حرج پر ہے اور حرج بنص قرآن مدفوع اور یہ امت دنیاوآخرت میں مرحومہ، والحمد للہ رب العالمین۔“

(فتاوی رضویہ، جلد1(ب)، صفحہ 609 ، 610 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اس  تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح وثابت ہو جاتی  ہے کہ غسل فرض ہونے کی صورت میں سی جی ایم سینسر جسم سے جدا کر کے غسل کرنا فرض  ہوگا کہ اسے اتارنے میں کوئی ضرر یا  حرج نہیں ، ہاں اگر کوئی واقعی ایسا مریض ہے کہ جس کے لئے اس سینسر  کو لگائے رکھنا ناگزیر ہو جائے اورشرعی حاجت کے درجے میں آجائے ، تو اسے رخصت ہوسکتی  ہے ، لیکن ڈاکٹرز سے ملنے والی معلومات کے مطابق مستقل طور پر  کسی مریض کو اس کی حاجت نہیں ہوتی،نیز پھر ہر مریض کی کیفیت دوسرے سے مختلف ہو تی ہے لہذا اگر کسی کو واقعی اس کی حاجت ہے تو وہ اپنی مکمل کیفیت بیان کر کے مسئلہ پوچھ سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم