کپڑے کا ناپاک حصہ معلوم نہ ہو ، تو پاک کیسے کریں ؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor-11278

تاریخ اجراء:05جمادی الاخریٰ1442ھ/19جنوری2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ  اگر  کسی کپڑے مثلاکمبل،چادروغیرہ کا کوئی حصہ ناپا ک ہوجائے،لیکن نجاست کا نشان وغیرہ ختم ہونےکی وجہ سے یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کپڑے کا کون سا حصہ ناپاک تھا تو کیا اس صورت میں کپڑ اپاک کرنے کےلیے پوراکپڑا دھونا ضروری ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پاک کپڑےکاکوئی حصہ یاقمیض،شلوار وغیرہ  کاکوئی حصہ مثلاً آستین وغیرہ کا کوئی جزءناپا ک ہوجائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ کون سا حصہ ناپاک ہے  تواس صورت میں احکام کی تین صورتیں ہیں

    پہلی صورت:کپڑےکےناپاک حصےکے بارے میں علم نہ ہو تو  پورے کپڑےکواور آستین وغیرہ کے مسئلےمیں، پوری آستین کودھو کر پا ک کرلینا بہتر ہے ۔

    دوسری صورت: کپڑے کے ناپاک حصے کے بارے میں غوروفکر کیاجائےکہ کون سا حصہ ناپاک  ہے،پھر  جس حصے کےبارے میں گمان ہو کہ یہ ناپاک ہےتو صرف وہی حصہ دھونےسےکپڑا پا ک ہوجائے گا ۔سوچ وبچار  سے کپڑا پا ک کرنے کے بعداگر معلوم ہو کہ  کپڑے کا کوئی دو سرا حصہ ناپاک تھا، تو اگر اس کپڑے   میں نماز ادا کی تھی تووہ نماز ہوجائےگی، اس کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا ۔

    تیسری صورت:کپڑے کا ناپاک حصہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں  بغیر غور فکر کیے کسی ایک حصے کو پا ک کرنے سےبھی کپڑا پاک ہوجائے گا،اوراس صورت میں اگر بعد میں معلوم ہو کہ کپڑے کا دوسرا حصہ ناپاک تھا،توان کپڑو ں میں جو نمازیں اداکی ہیں ان کو دوبارہ پڑھنا لازم ہے ،بشرطیکہ نجاست قدر مانع ہو۔

    نیزآخری دو صورتوں میں ناپاک حصےکے بارےمیں  علم ہونے کے بعد ا س کپڑ ے کو نماز کے لیے استعمال کرنےسے پہلے ناپا ک حصے کو پاک کرنا ضروری ہے ۔

    عالمگیری میں ہے:”إذا تنجس طرف من أطراف الثوب ونسيه فغسل طرفا من أطراف الثوب من غير تحر  حكم بطهارة الثوب هو المختار فلو صلى مع هذا الثوب صلوات ثم ظهر أن النجاسة في الطرف الآخر يجب عليه إعادة الصلوات التي صلى مع هذا الثوب كذا في الخلاصة والاحتياط أن يغسل جميع الثوب “یعنی جب کپڑے کے کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ ناپاک ہوجائے  اور وہ اس کنارے کو بھول گیااور اس نے بغیر سوچے کسی ایک کنارے کو دھولیا توکپڑے کی پاکی  کا حکم دیا جائے گا یہی مختار ہے۔ اگر اس نے ان کپڑوں کےساتھ نمازیں ادا کیں اور پھر ظاہر ہو اکہ دوسرا کنارہ  ناپاک تھا تو ان نمازوں کا اعادہ واجب ہے جو ان کپڑوں میں ادا کی ہیں،اسی طرح خلاصہ میں  ہے۔اور احتیاط اس میں ہے کہ وہ پورے کپڑے کو دھو لے ۔

        بحرالرائق میں ہے:”وفي الخلاصة، إذا تنجس طرف من أطراف الثوب ونسيه فغسل طرفا من أطراف الثوب من غير تحر حكم بطهارة الثوب وهو المختار فلو صلى مع هذا الثوب صلوات ، ثم ظهر أن النجاسة في الطرف الآخر يجب عليه إعادة الصلوات التي صلى مع هذا الثوب واختار في البدائع في المسألة الأولى غسل الجميع احتياطا “یعنی خلاصہ میں ہےکہ جب کپڑے کے کناروں میں سے کوئی کنارہ ناپاک ہوگیا اور وہ بھول گیااور اس نے بغیر سوچے کپڑے کاکوئی ایک کنارہ دھولیاتو کپڑے کی پاکی کا حکم دیا جائےگا،یہی مختار ہے۔پھر اگر اس نے ان کپڑوں کےساتھ نمازیں ادا کیں اور بعد میں معلوم ہواکہ نجاست دوسرے کنارےمیں تھی تو جو نمازیں ان کپڑوں کے ساتھ ادا کی ہیں ان کا اعادہ کرےاور بدائع میں پہلے والے مسئلےمیں احتیاطاً پورا کپڑا دھونے کو اختیار کیا ہے ۔

(بحر الرائق ،جلد1،صفحہ382،مطبوعہ کوئٹہ)

    مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمۃ فرماتےہیں:”کپڑے کا کوئی حصہ ناپاک ہوگیا اور یہ یاد نہیں کہ وہ کون سی جگہ ہے تو بہتریہی ہےکہ پورا دھو ڈالیں ،یعنی جب بالکل ہی معلوم نہ ہو کہ کس حصہ میں ناپاکی لگی ہے ،اور اگر معلو م ہو کہ مثلاً آستین یا کلی نجس ہوگئی،مگر یہ معلوم نہیں کہ آستین یا کلی کا کونسا حصہ ناپاک ہے،تو آستین یا کلی کا دھونا ہی پورے کپڑے کا دھونا ہے اور اگر اندازے سے سوچ کراس کا کوئی حصہ دھولے جب  بھی پا ک ہوجائےگا ،او جو بلاسوچے ہوئے کوئی ٹکڑا دھو لیا جب بھی پا ک ہے،مگر اس صورت میں اگر چند نمازیں پڑھنے کےبعد معلوم ہو کہ نجس نہیں دھویا ، تو پھر دھوئے اور نمازوں کا اعادہ کرےاور جو سوچ کر دھولیا تھا اور بعدکو غلطی معلوم ہوئی تو اب دھولے اور نمازوں کے اعادہ کی حاجت نہیں ۔‘‘

(بهار شریعت ،جلد1،صفحہ400،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم