جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو ، اس کی پاکی و ناپاکی کا حکم ؟

مجیب:مولانا ابو بکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10377

تاریخ اجراء:09جمادی الاخری1442ھ/23جنوری2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا بارہ  سال کا نابالغ بیٹا ہے ، جس کا دماغی توازن بالکل درست نہیں ، کسی بھی  چیز کو نہیں سمجھتا ، کوئی تدبیرو کام نہیں کرسکتا ، نجاست وطہارت کی بھی کوئی تمییز نہیں رکھتا ،  ڈائپر نہ لگا ہو، تو  کپڑوں  میں نجاست کر دیتا ہے اور کبھی  اپنا  نجاست والا ہاتھ اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے ،خود کھانا بھی نہیں کھا سکتا،  اگر کوئی پاس کھانا کھا  رہا  ہو اور اسے بھوک لگی ہو تو رونے لگ جاتا ہے کھانا  نہیں مانگتا،خود ہی اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کو کھانا چاہیے ، خاموش بیٹھا رہتا ہے کوئی کلام نہیں کرتا،کبھی بھی اس کو افاقہ نہیں ہوتا، بچپن سے ہی اس کی یہی حالت ہے ،البتہ بلاوجہ مارتا اور گالیاں نہیں دیتا، لیکن  ہاتھ نہیں پکڑنے دیتا کہ کوئی  ہاتھ پکڑے تو جھٹکا دے کر چھڑا لیتا ہے ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اب وہ بالغ ہونے کے قریب ہو گیا ہے، کیا اس پر پاکی حاصل کرنا واجب ہوگا،  جبکہ وہ خود استنجا نہیں کر سکتا ؟ کیا اب اس کو استنجا کروانا میرے(والدہ کے) لیے جائز ہوگا؟جبکہ گھر میں کوئی مرد   نہیں ہوتا جو یہ کام کر سکے ؟ ایسی صورت میں  اس کے کپڑےو ڈائپر بدلنے کی کیا  مجھے اجازت ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دریافت کی گئی صورت  میں  نماز ، روزہ ، اور پاکی کے احکام مثلا  :استنجا و غیرہ  اس پر لازم نہیں اور بالغ ہونے کے بعد   بھی یہی کیفیت رہی تو تب بھی  یہ احکام  اس پر لازم نہیں ہوں گے کہ مذکورہ کیفیت میں وہ لڑکا  کم از کم معتوہ (جس کی عقل  میں خلل ہو،تدبیر وغیرہ میں فساد ہو)تو ضرور ہے اور معتوہ سے شریعت  مطہرہ  تب تک کے لیے یہ احکام اٹھا لیتی ہے ،  جب تک اس کو  افاقہ نہیں ہو جاتا ۔

      رہا یہ کہ آپ یا کوئی اور اس کو استنجا کرو ا دے تو یاد رہے کہ کسی پر بھی یہ واجب نہیں،  بلکہ  اب جبکہ مراہق قابلِ شہوت  ہوگیا، تو   استنجا کروانے کے لیے  اس کےستر کی جگہ کوبلا حائل چھونا  ودیکھناآپ و دیگر کے لیے جائز نہیں ،البتہ کوئی ایسی صورت  (جس میں اس کے ستر کو دیکھنا و چھونا نہ ہو)کرنی چاہیے کہ اس کی مکمل صفائی ہوجائے (مثلا ہاتھوں پر دستانے  پہن کر یا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ کر ، ستر کو دیکھے بغیر دھویا جائے  وغیرہ)کیونکہ مسلسل نجاست لگتے رہنے سے خارش وغیرہ مؤذی امراض لگنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔

    رہا کپڑے اور ڈائپر بدلنا، تو  اس کے ستر( ناف سے گھٹنوں سمیت بدن کے حصے ) کو بلا حائل  چھوئے اور دیکھے بغیر  یہ کام  کرنا ہوگا  یعنی اسی طرح کے دستانے پہن لے یا ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لے اور اوپر کوئی چادر وغیرہ سے پردہ کر کے یہ کام کرے ، البتہ احتیاط کے باوجود اگر ہاتھ مس ہو گیا یا ستر کے کسی حصے پر نظر پڑ گئی تو  یہ معاف ہے ،جبکہ فوراً ہٹا لےاور والد  یا کوئی  مردیہ کام کرے، ہاں کبھی کوئی ایسی مجبوری کی صورت ہو گئی کہ کوئی مرد پاس نہیں اور اس کے والد یا کسی مرد کے آنے کا انتظار کیا جائے، تو یہ  جگہ جگہ نجاست پھلا دے گا،بدبو پھیل جائے گی ،یا زیادہ دیرایسے رہنے سے لڑکے  کو کوئی ضرر  یا بیماری لاحق ہونے کا گمان ہو، تو پھر والدہ بھی ان دو شرائط کے ساتھ یہ تبدیل  کر سکتی ہے۔لیکن  جہاں تک ممکن ہو  والدہ اس سے احترازہی  کرے۔

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’ مسلوب الحواسی کی اعلی قسم تو جنون ہے والعیاذباللہ منہ، اورادنی قسم عتہ، جس کے صاحب کو معتوہ کہتے ہیں۔ اس میں بھی اسی قدر ضرورت ہے کہ تدبیریں اس کی ٹھیک نہ رہیں ، سمجھ اس کی درست نہ ہو، باتوں کاکوئی ٹھکانہ نہ رہے۔ ابھی بیٹھاہے خوب ہوش وحواس کی باتیں کررہاہے، ابھی خرافات وہذیانات بکنے لگا ، سودائیوں کی طرح مہمل وبے معنی بکنے لگا ،یہاں تک کہ شریعت مطہرہ اس کے اوپر سے اپنی تکلیفیں اٹھالیتی ہے اور نماز وروزہ تک اس کے اوپر فرض نہیں رہتا۔ فی الفتاوی الخیریۃ العتہ قلۃ الفھم واختلاط الکلام وفساد التدبیر وذٰلک بسبب اختلاط العقل فیشبہ مرۃ کلامہ کلام العقلاء ومرۃ کلام المجانین۔وفی ردالمحتار حکم المعتوہ کالصبی العاقل فی تصرفاتہ، وفی رفع التکلیف عنہ زیلعی (ترجمہ : )  فتاوی خیریہ میں ہے، عتہ، قلت فہم، کلام کا اختلاط اور فساد تدبیر ہے اور یہ عقل میں خلل کی وجہ سے ہوتاہے ،تو کبھی اس کا کلام عقلا کے کلام اورکبھی مجانین کے کلام کے مشابہ ہوتاہے۔ اور ردالمحتارمیں ہے کہ معتوہ کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے تصرفات اور غیر مکلف ہونے میں نابالغ عاقل جیسا ہوتاہے ۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج19،ص619، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    فتاوی رضویہ میں ہے :’’ اس کی عقل میں قصور اورحواس میں فتور اس درجہ ہوگیاکہ نجاست وطہارت میں تمیزنہیں کرتی اورقلت فہم و اختلاط کلام وفساد تدبیر اسے لازم، تو وہ معتوہہ ہے اورکل تصرفات قولیہ سے محجورہ ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ،ج25،ص384، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    طحطاوی علی المراقی ، فتاوی ہندیہ ، محیط برہانی اور فتاوی قاضی خان  وغیرہ میں ہے:(و النظم للاول)’’ فرع في الخانية مريض عجز عن الاستنجاء ولم يكن له من يحل له جماعه سقط عنه الإستنجاء لأنه لا يحل مس فرجه إلا لذلك والله أعلم ‘‘ فتاوی قاضی خان میں مسئلہ بیان کیا کہ مریض جو استنجا کرنے سے عاجز ہو اور  وہ نہ ہو جس سے اس کے لیے جماع جائز ہے تو اس سے استنجا ساقط ہو جائے گا ، کیونکہ اس معاملے کے لئے  اس کی شرمگاہ کو  چھونا  ،جائز نہیں  سوائے اس کے جس سے صحبت جائز ہے ۔

 ( طحطاوی علی المراقی،ج1،ص49،دار الکتب العلمیۃ)

    در مختار میں ہے :’’ ولو شلتاسقط أصلا كمريض ومريضة لم يجدا من يحل جماعه‘‘ یعنی اگر کسی کے ہاتھ شَل ہو گئے تو اس سے استنجا اصلا ساقط ہو جائے گا جیسا کہ مریض   مردو عورت سے ساقط ہو جاتا ہے جب کہ   پاس وہ نہ ہو جس سے ان کے لئے  صحبت جائز ہے۔

    اس کے تحت رد المحتار میں ہے :’’ (قوله: سقط أصلا) أي: بالماء والحجر. (قوله: كمريض إلخ) في التتارخانية: الرجل المريض إذا لم تكن له امرأة ولا أمة وله ابن أو أخ وهو لا يقدر على الوضوء قال يوضئه ابنه أو أخوه غير الاستنجاء؛ فإنه لا يمس فرجه ويسقط عنه والمرأة المريضة إذا لم يكن لها زوج وهي لا تقدر على الوضوء ولها بنت أو أخت توضئها ويسقط عنها الاستنجاء. اهـ. ولا يخفى أن هذا التفصيل يجري فيمن شلت يداه؛ لأنه في حكم المريض ‘‘ یعنی  : پانی اور پتھر  دونوں سے ہی استنجا کرنا ساقط ہو جائے گا  جیسا کہ مریض سے ساقط ہو  جاتا ہے ، تاتارخانیہ میں  ہے مریض شخص  جو وضو کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور اس کی بیوی اور لونڈی نہ ہو ،بیٹا یا بھائی ہو تو اس کا بیٹا یا بھائی اس کو وضو کروائیں گے، استنجا نہیں کروا سکتے کیونکہ  وہ اس کی  شرمگاہ کو نہیں  چھو سکتے،استنجا اس سے ساقط ہو جائے گا اور مریض عورت جو وضو کرنے پر قدرت نہ رکھتی ہو اور اس کا  شوہر نہ  ہو ، بیٹی یا بہن ہو تو وہ اس کو وضو کروائیں گی، استنجا اس سے ساقط ہو جائے گا ۔ یہ بات مخفی نہیں کہ یہ تفصیل اس شخص کے  متعلق  بھی جاری ہوگی ، جس کے  دونوں ہاتھ  شَل ہو گئے ہوں  کیونکہ وہ بھی مریض کے حکم میں ہے ۔

               (رد المحتارمع الدرالمختار،ج1،ص607،مطبوعہ کوئٹہ)

    طحطاوی علی الدر میں ہے :’’قولہ( سقط اصلا ) ای بالماء و الحجر ، قال الحلبی: و الظاھر ان سقوطہ مقید بما اذا لم یجد من یحل جماعہ انتھی،اقول قدم الشارح ان احد الزوجین لا یجب علیہ تعاھد الآخر بخلاف المملوک اللھم الا ان یحمل کلامہ علیہ، اما احد الزوجین فلا یمنع السقوط الا ان یتبرع و مثل ذالک یقال فی المریض و المریضۃ‘‘ یعنی  پانی اور پتھر  دونوں سے ہی استنجا کرنا ساقط ہو جائے گا   ، حلبی نے فرمایا  یہ ساقط ہونا ظاہر ہے کہ اس قید کے ساتھ مقید ہے ، جبکہ اس کے پاس وہ نہ ہو جس سے جماع حلال  ہے  ، انتھی ۔میں کہتا ہوں شارح نے پیچھے بیان کیا کہ زوجین میں سے کسی پر دوسرے کی دیکھ بھال واجب نہیں ، مملوک غلام و لونڈی  میں اس کے بر عکس حکم ہے ، مگریہ  کہ ان کے کلام کو اس پر محمول کیا جائے  کہ زوجین میں سے کسی کا ہونا سقوط ِاستنجا  سے مانع نہیں مگر یہ کہ وہ تبرعا کرے، اسی کی مثل مریض اور مریضہ کے بارے میں کہا جائے گا ۔

 ( طحطاوی علی الدر،ج1،ص730،دار الکتب العلمیۃ)

    بہار شریعت میں ہے :’’ مرد لُنجھا ہو تو اس کی بی بی استنجا کرادے اور عورت ایسی ہو تو اس کا شوہر اور بی بی نہ ہو یا عورت کا شوہر نہ ہو تو کسی اور رشتہ دار بیٹا، بیٹی، بھائی، بہن سے استنجا نہیں کراسکتے بلکہ معاف ہے۔ ‘‘        

(بھار شریعت،ج1،ص413،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    ضرورت کے وقت صفائی کرنے کے لئے ہاتھ پرکپڑالپیٹنے کااس لیے کہاگیاتاکہ حتی الامکان سترعورت کو چھونے سے بچاجائے کیونکہ  اس معاملے کے لئے ستر عورت کی طرف  نظر کرنے کی طرح  بلا حائل چھونا بھی دیگر کے لئے جائز نہیں،  جیسا کہ انہیں شرائط کے ساتھ میت  کے ستر  عورت کی جگہ کو دھونے اور استنجا کروانے کا کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے :’’ وتستر عورته بخرقة؛ لأن حرمة النظر إلى العورة باقية بعد الموت قال النبي صلى الله عليه وسلم : «لا تنظروا إلى فخذ حي ولا ميت»۔۔۔ثم الخرقة ينبغي أن تكون ساترة ما بين السرة إلى الركبة؛ لأن كل ذلك عورة وبه أمر في الأصل حيث قال: وتطرح على عورته خرقة هكذا ذكر عن أبو عبد الله البلخي نصا في نوادره، ثم تغسل عورته تحت الخرقة بعد أن يلف على يده خرقة كذا ذكر البلخي؛ لأن حرمة مس عورة الغير فوق حرمة النظر، فتحريم النظر يدل على تحريم المس بطريق الأولى‘‘ یعنی  میت کے ستر عورت کی جگہ کو کپڑے سے  ڈھانپ لیا جائے کیونکہ  موت کے بعد بھی ستر کی طرف نظر کرنے  کی حرمت  باقی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  نے فرمایا :زندہ اور مردہ کی ران کی طرف نظر مت کرو۔پھر  کپڑا ایسا ہونا چاہیے جو ناف سے گھٹنوں کے درمیان کی جگہ کو ڈھانپ لے   کیونکہ یہ مکمل  اس کی چھپانے کی جگہ ہے ، اصل میں یہی حکم دیا کہ وہاں فرمایا ، اس کی عورت کی جگہ پر کپڑا ڈال لیا جائے ،اسی طرح امام ابو عبد اللہ بلخی نے نوادر میں صراحتا نقل  کیا پھر  ہاتھ پر کوئی کپڑا لپیٹنے کے بعدکپڑے کے نیچے سے ستر کی جگہ کو دھویا جائے  جیسا کہ بلخی نے ذکر کیا،کیونکہ غیر کے ستر عورت کو چھونے کی حرمت اس کی طرف نظر کرنے سے  زیادہ ہے  تو نظر کی حرمت سے چھونے کی حرمت  پر دلالت بدرجہ اولی ہوگی ۔  

(بدائع الصنائع ،ج1،ص300، دار الكتب العلمية)

     فتاوی ہندیہ میں ہے:’’وصورة استنجائه أن يلف الغاسل على يديه خرقة ويغسل السوأة؛ لأن مس العورة حرام كالنظر إليها، كذا في الجوهرة النيرة ‘‘ یعنی میت کو استنجا کروانے کی صورت یہ ہے کہ نہلانے والاہاتھ پرکپڑالپیٹ کر استنجا کرائے کیونکہ  دوسرے کے لئے اس کی ستر  عورت کی جگہ کو چھونا حرام ہے جیسا کہ اس کی طرف نظر کرنا حرام ہے ،ایسا ہی جوہر ۃ النیرۃ میں ہے ۔ 

     (فتاوی ھندیہ،ج1،ص158، دار الفکر، بیروت)

    بہارشریعت میں میت کوغسل دینے کاطریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’پھرنہلانے والاہاتھ پرکپڑالپیٹ کرپہلے استنجا کرائے۔‘‘

(بھارشریعت،ج01،حصہ04،ص811،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    اسی طرح  جب کوئی شخص اپنے زیرِ ناف بال خود صاف نہ کر سکتا ہو تو ضرورتاانہیں دو شرائط (ستر  کو دیکھے اور چھوئے بغیر)کے ساتھ دوسرے سے صاف کروانے کی اجازت دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ بالوں کی بنسبت نجاست  کی صفائی کی حاجت زیادہ ہے اور اسے یوں ہی چھوڑے رکھنے میں ضرر بھی زیادہ ہے کہ اس سے گھر کے دیگر افراد کو بھی ضرر لاحق ہوگا لہٰذا اس میں بدرجہ اولی اجازت ہوگی۔ فتاوی تاتارخانیہ،فتاوی عالمگیری،محیط برھانی،بحرالرائق اورالبنایۃ شرح الہدایۃ اورردالمحتارمیں ہے (واللفظ للاول)’’وذكر الفقيه أبو الليث رحمه اللہ في «فتاواہ» في باب الطهارات؛ قال محمد بن مقاتل الرازي: لا بأس بأن يتولى صاحب الحمام عورة إنسان بيده عند التنوير إذا كان يغض بصره كما أنه لا بأس به إذا كان يداوي جرحاً أو قرحاً، قال الفقيه: وهذا في حالة الضرورة لا في غيرهاوینبغی لکل احدان یتولی عانتہ بیدہ اذاتنور‘‘ترجمہ: اورفقیہ ابواللیث علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں باب الطہارات میں ذکرفرمایاہے کہ محمدبن مقاتل رازی نے کہا:اس میں کوئی حرج نہیں کہ حمام والاکسی شخص کی شرمگاہ پربال صفاپاوڈراپنے ہاتھ سے لگائے جبکہ اپنی آنکھوں کوبندکرلےجیساکہ جب کسی زخم یاپھوڑے کاعلاج کرناہو تواس صورت میں شرمگاہ کوچھوناجائزہوجاتاہے ،فقیہ ابواللیث علیہ الرحمۃ نے فرمایا:اوریہ ضرورت کی حالت میں ہے بغیرضرورت کے اجازت نہیں اورہرایک کوچاہیے کہ وہ اپنی زیرناف پراپنے ہاتھ سے بال صفاپاوڈرلگائے ۔

(فتاوی تاتارخانیہ،کتاب الکراھیۃ،الفصل:مایحل لرجل النظرالیہ،ج18،ص99،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم