داڑھ بھروانے کی صورت میں وُضو و غسل کا حکم

مجیب: مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری/فروری 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی شخص نے اگر اپنی داڑھ بھروائی ہو تو کیا اس کا وُضو و غسل ہو جائے گا؟ جبکہ داڑھ بھروائی ہو تو اس کو نکالا نہیں جاسکتا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    داڑھ بھروانا شرعی طور پر جائز ہے اور اگر کسی نے داڑھ بھروائی ہو تو اس کا وُضو و غسل بِلاکراہت ہو جائے گا اور اس کے نیچے پانی نہ پہنچانے کو وُضو میں ترکِ سنّت اور غسل میں ترکِ فرض قرار نہ دیا جائے گا کیونکہ ایسی حالت میں اس کے نیچے پانی بہانا ناممکن ہوتا ہے اور جس جگہ تک پانی پہنچانا مُتَعَذِّر ہو یا مَشَقَّت و حرج کا باعث ہو وہاں تک پانی پہنچانے کا شریعت نے مُکَلَّف نہیں کیا۔

        اس کی نَظِیر ہلتا ہوا دانت ہے کہ اگر تار سے باندھا ہو یا کسی مسالے وغیرہ سے جمایا ہو یا دانتوں میں چونا یا مِسِّی کی ریخیں جم گئی ہوں تو شرعی طور پر اس کے نیچے پانی بہانا ضَروری نہیں یونہی مصنوعی دانت لگوانے کی صورت میں اگر دانت کو اُتارنا حرج و مَشَقَّت کا باعث ہو تو اُتار کر نیچے پانی بہانے کی حاجت نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم