Ahtilam Wale Kapre Pehen Kar Ghusl Karna Kaisa ?

احتلام والے کپڑے پہن کر غسل کرنا کیسا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12598

تاریخ اجراء: 20 جمادی الاولیٰ 1444 ھ/15 دسمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  جن کپڑوں میں احتلام ہوا، ان ہی کپڑوں کو پہنے ہوئے غسل کرلیا،تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جن کپڑوں میں احتلام کے ساتھ غسل فرض ہوا ان ہی کپڑوں کو پہن کرغسل کیااور اتنا پانی بہایا جس سے غالب گمان ہوگیا کہ  پانی کپڑے اور بدن پر لگنے والی نجاستِ حقیقیہ(یعنی منی) کو بہا کر لے گیا ہوگا، تو اس صورت میں کپڑے اور بدن نجاستِ حقیقیہ سے پاک ہوگئے  اور  غسل کرتے ہوئے مکمل احتیاط کے ساتھ اس کے تمام فرائض (یعنی کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور ظاہربدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر بھی کوئی جگہ خشک باقی نہ رہے)صحیح طور پر ادا کئے ، تو غسل  ادا ہوگیااور بدن نجاستِ حکمیہ(یعنی جنابت) سےبھی  پاک ہوگیا۔

   فتح القدیر میں ہے:”قال ابو یوسف فی ازار الحمام اذا صب علیہ ما ء کثیر و ھو علیہ یطھر بلا عصر “یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حمام کے ازار کے متعلق فرمایا:جب اس پر کثیر پانی بہا دیا جائے اس حال میں کہ وہ ازار اس  نے پہنا  ہو، تو بغیر نچوڑے پاک ہوجائے گا۔(فتح القدیر، جلد 1،صفحہ 210،مطبوعہ:بیروت)

   البحر الرائق میں ہے:” إذا صب الماء على الثوب النجس إن أكثر الصب بحيث يخرج ما أصاب الثوب من الماء وخلفه غيره ثلاثا فقد طهر“یعنی جب ناپاک کپڑے پر پانی بہا دیا گیا، تو اگر پانی کا بہنا کثیر ہو اس طرح سے کہ کپڑے کو جو ناپاک پانی لگا ہو تین باراس کو نکال دے اور اس کی جگہ دوسرا پانی آجائے ، تو کپڑا پاک ہوجائے گا۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 412،مطبوعہ:کوئٹہ)

   البحر الرائق میں ہے:”ولا يخفى أن الإزار المذكور إن كان متنجسا فقد جعلوا الصب الكثير بحيث يخرج ما أصاب الثوب من الماء ويخلفه غيره ثلاثا قائما مقام العصر كما قدمناه عن السراج فحينئذ لا فرق بين إزار الحمام وغيره “یعنی  مخفی نہیں کہ ازارِ مذکور اگر نجس ہو ، تو فقہاء نے کثیر پانی اس طرح کہ   کپڑے کو جو ناپاک پانی لگا ہوتین باراس کو نکال دے اور اس کی جگہ دوسرا پانی آجائے ، بہانے کو  نچوڑنے کے قائم مقام قرار دیا ہے  جیسا کہ ہم نے ماقبل میں سراج سے بیان کیا ، تو اس  مسئلے میں ازارِ حمام   اور اس کے علاوہ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 413،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ بحر میں اور علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:”لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر والمعتبر غلبة الظن هو الصحيح“یعنی اس وجہ سے کہ (کثیر)پانی کا بہنا تکرار اور نچوڑنے کے مرتبہ میں ہے اور اعتبار ظنِ غالب کا ہے ،یہ قول صحیح ہے۔(البحر الرائق، جلد1،صفحہ 412،مطبوعہ:کوئٹہ)

   فقیہِ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”نجس کپڑا پہن کر غسل کرنے کے بارے میں حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ اگر غسل کرنے والے نے اپنے کپڑے پر بہت پانی ڈالا تو وہ پاک ہوجائے گا اور جب کپڑا پاک ہوجائے ،تو وہ صحتِ غسل کو مانع نہ ہوگا ۔۔۔اس لئے غسل میں بہت زیادہ پانی ڈالنا یقیناً تین بار دھونے اوراور نچوڑنے کے قائم مقام ہوجائے گا“(ملتقط ازفتاوی فیض الرسول، جلد 1،صفحہ 166، شبیر برادرز، لاھور)

   صدر الشریعہ، بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ غسل کے فرائض بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں : ”غسل میں تین فرض ہیں۔(1)کلی :کہ مونھ کے ہر پرزے ، گوشے، ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہہ جائے ۔۔۔(2)ناک میں پانی ڈالنا یعنی دونوں نتھنوں کا جہاں تک نرم جگہ ہے دھلنا کہ پانی سونگھ کر اوپر چڑھائے ، بال برابر جگہ بھی دھلنے سے  رہ نہ جائے ورنہ غسل نہ ہوگا۔۔۔۔(3)تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جسم کے ہر پرزے ، ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ 2، صفحہ 316۔317، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تنبیہ:

   بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ غسل کرنے میں بے احتیاطی اختیار کرتے ہیں ،جبکہ غسل کرنے اور بالخصوص ناپاک کپڑے پہن کر غسل کرنے میں انتہائی احتیاط کی حاجت ہے، اگر بے احتیاطی اختیار کی اور اتنا کثیر پانی نہ بہایا جو نجاست کو بہا کر لے جانےوالاہو ،تو بدن اورکپڑے پاک نہ ہوں گے،بلکہ اس طرح کی بے احتیاطی سے کپڑے اور بدن کا وہ حصہ بھی ناپاک ہوجائےگا جہاں یہ نجاست سے لگنے والا پانی پہنچا۔ اسی طرح کپڑے پہنے ہوئے  غسل کرنے میں غسل کے فرائض ادا کرنے میں بھی نہایت احتیاط ضروری ہے کہ کپڑا پہنے ہونے کی حالت میں  بھی عام حالت کی طرح ظاہر بدن کے ہر حصہ  اور ہر گوشہ میں پانی بہایا جائے،اگر احتیاط نہیں کی گئی اور ظاہرِ بدن کی بال برابر بھی کوئی جگہ پانی بہنے سے رہ گئی، تو غسل ادا نہ ہوگا۔   

   ناپاک کپڑا پہن کر غسل کرنے پر تنبیہ کرتے ہوئے مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لوگ عموماً بہت زیادہ پانی نہیں ڈالتے، جس سے نجاست اور پھیل جاتی بلکہ ہاتھ میں نجاست لگ جاتی ہے، پھر بے احتیاطی سے سارابدن یہاں تک برتن بھی نجس ہوجاتا ، اس لئے پاک ہی کپڑا پہن کر غسل کرنا چاہئے“(فتاوی فیض الرسول، جلد 1،صفحہ 166، شبیر برادرز، لاھور)

   فتاوی مصطفویہ میں ہے:”(تہبند باندھ کر غسل کرنے کی صورت میں) احتیاط کریں سارے جسم پر پانی بہہ جائے ، اس طرح تہبند جسم سے علیحدہ کر کے پانی ڈالیں“ (فتاوی مصطفویہ، صفحہ 137،شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم