Cheel Ki Beet Pak Hai Ya Napak ?

کیا چیل کی بیٹ سے کپڑے ناپاک ہوجائیں گے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13083

تاریخ اجراء: 17ربیع الثانی1445 ھ/02نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ چیل کی بیٹ اگر کپڑوں پر لگ جائے تو کیا وہ کپڑے ناپاک ہوجائیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! چیل کی بیٹ کپڑے کے جس حصے پر لگے گی اُسے ناپاک کردے گی کہ چیل کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہے، اور نجاستِ خفیفہ کا حکم یہ ہے کہ کپڑے یا بدن کے جس حصے میں لگی ہو ، اگر اُس حصے کی چوتھائی سے کم میں لگی ہو تو معاف ہے یعنی اس صورت میں نماز ادا ہوجائے گی، اور اگر چوتھائی کے برابر یا اس سےبھی  زائد مقدار میں یہ نجاست لگ جائے تو بغیر دھوئے نماز ادا نہیں ہوگی۔

   جن پرندوں کا گوشت کھانا حرام ہے اُن کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”خرء طير لا يؤكل مخفف هكذا في الكنز“ یعنی اس پرندے کی بیٹ  جسے کھایا نہ جاتا ہو، نجاستِ خفیفہ ہے، یونہی کنز میں مذکور ہے ۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج01، ص 46،  مطبوعہ پشاور)

   تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:(وخرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر وإلا فمخففیعنی اُس پرندے کی بیٹ  جو ہوا میں اڑتا نہ ہو، نجاستِ غلیظہ ہے جیسا کہ پالتو بطخ اور مرغی، جبکہ  وہ پرندے جو ہوا میں اڑتے ہوں  ، اگر انہیں کھانا حلال ہے تو ان کی بیٹ پاک ہے، ورنہ ان کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہے۔

    (وإلا فمخفف) کے تحت رد المحتار میں ہے:أي: وإلا يكن مأكولا كالصقر والبازي والحدأة، فهو نجس مخفف عنده مغلظ عندهماترجمہ: ”یعنی اگر اُس پرندے کا کھانا حلال نہ ہو جیسا کہ شکرا، باز اور چیل تو امام اعظم  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی بیٹ  نجاستِ خفیفہ ہے، جبکہ صاحبین علیہما الرحمہ کے نزدیک اُس کی بیٹ نجاستِ غلیظہ ہے۔ “(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج01،ص320،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” جس پرند کا گوشت حرام ہے، خواہ شکاری ہو یا نہیں، (جیسے کوّا، چیل، شِکرا، باز، بہری) اس کی بِیٹ نَجاستِ خفیفہ ہے۔ (بہارِ شریعت، ج01، ص 391، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے: ” کبوتر، مینا، فاختہ کی بیٹ پاک ہے اور کوا، چیل کی نجاستِ خفیفہ۔ (فتاوٰی امجدیہ، ج01، ص 34، مکتبہ رضویہ کراچی)

   نجاستِ خفیفہ چوتھائی سے کم مقدار میں لگی ہو تو نماز ہوجائے گی۔ جیسا کہ فتح باب العنایۃ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: (ويعفى ما دون ربع الثوب) وكذا حكم البدن (من نجس)۔۔۔۔۔(خف)ترجمہ: ” کپڑے یا بدن پر چوتھائی سے کم مقدار میں نجاستِ خفیفہ لگی ہو تو معاف ہے۔(فتح باب العناية بشرح النقاية،کتاب الطھارۃ، ج01،ص158، دار الأرقم، بیروت، ملتقطاً)

   الاشباہ و النظائر  میں ہے:”السادس : العسر وعموم البلوى كالصلاة مع النجاسة المعفو عنها كما دون ربع الثوب من مخففة “ یعنی اسبابِ تخفیف میں سے چھٹا سبب تنگی اور عمومِ بلوٰی ہے جیسا کہ نماز اُس نجاست کے ساتھ ادا کرنا کہ جسے معاف رکھا گیا ہو مثلاً کپڑے کے چوتھائی حصے سے کم میں نجاستِ خفیفہ کا لگا ہونا ۔(الاشباہ و النظائر  ، الفن الاول: القواعد الکلیۃ، ص 65،  دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   نجاستِ خفیفہ کے حکم سے متعلق بہارِ شریعت میں مذکور  ہے: ”نَجاستِ خفیفہ کا یہ حکم ہے کہ کپڑے کے حصہ یا بدن کے جس عُضْوْ میں لگی ہے، اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے (مثلاً دامن میں لگی ہے تو دامن کی چوتھائی سے کم، آستین میں اس کی چوتھائی سے کم ۔ یوہیں ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہے) تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہو جائے گی اوراگر پوری چوتھائی میں ہو تو بے دھوئے نماز نہ ہوگی۔ “(بہارِ شریعت، ج01، ص 389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک دوسرے مقام پر  بہارِ شریعت ہی میں مذکور  ہے: ”عسر اور عموم بلویٰ پر بھی شریعت کے بہت سے مسائل و احکام متفرع ہیں ،عسر کا مطلب ہے تنگی اور دشواری اور عموم بلویٰ کا مطلب ہے ایسا ابتلاء عام جس سے بچنا دشوار اور مشکل ہو جیسے اس کپڑے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے جس پر چوتھائی کپڑے سے کم میں نجاست خفیفہ لگی ہو۔(بہارِ شریعت، ج03، ص 1074، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   البتہ یہ ضرور یاد رہے کہ نجاستِ خفیفہ چونکہ نجاست ہی کی ایک قسم ہے،  لہذا یہ نجاست اگر چوتھائی سے کم مقدار میں لگی ہو تب بھی  نجاست  کی جگہ پاک نہیں کہلائے گی جیسا کہ صاحبِ بدائع نے  اس کی صراحت فرمائی، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قلیل  مائع چیز میں نجاستِ خفیفہ یا غلیظہ کا ایک قطرہ بھی گر جائے تو وہ نجاست اُس پورے مائع کو ناپاک کر دے گی، اس سے واضح ہوا کہ نجاستِ خفیفہ قدرِ مانع سے کم ہو تب بھی ناپاک ہوگی۔

   چنانچہ فتاوٰی شامی میں ہے :ان المائع متی اصابتہ نجاسۃ خفیفۃ او غلیظۃ و ان قلت تنجس ولا یعتبر فیہ ربع و لا درھم؛ نعم تظھر الخفۃ فیما اذا اصاب ھذا المائع ثوباً او بدناً فیعتبر فیہ الربع“یعنی جب کسی مائع پر نجاست پہنچے خواہ خفیفہ ہو یا غلیظہ اگر چہ  قلیل ہو تو وہ اس کل مائع کو نجس کردے گی اور اس میں چوتھائی یا درہم کا اعتبار نہ ہوگا، ہاں خفت اس صورت میں ظاہر ہوگی جب یہ مائع کسی کپڑے یا بدن کو لگے کہ اس میں چوتھائی کاا عتبار کیا جائے گا۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 322، مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت ہی میں مذکور  ہے: ”نَجاستِ خفیفہ اور غلیظہ کے جو الگ الگ حکم بتائے گئے ،یہ اُسی وقت ہیں کہ بدن یا کپڑے میں لگے اوراگر کسی پتلی چیز جیسے پانی یا سرکہ میں گرے توچاہے غلیظہ ہویاخفیفہ، کُل ناپاک ہو جائے گی اگرچہ ایک قطرہ گرے جب تک وہ پتلی چیزحدِ کثرت پر یعنی دَہ در دَہ نہ ہو۔“(بہارِ شریعت، ج01، ص 390، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جو نجاست نماز کے حق میں معاف ہو، وہ پاک شمار نہیں ہوگی۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے :”فجعل القليل عفوا في حق جواز الصلاة للضرورة ، لا أن يطهر المحل حقيقة ۔یعنی قلیل نجاست کو نماز کے حق میں ضرورتاً معاف رکھا گیا ہے، اس سے یہ مراد نہیں کہ نجس جگہ ہی پاک کہلائے۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 85، دار الكتب العلميۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم