Choti Tanki Mein Goh Gir Kar Mar Gai To Pani Aur Is Se Kiye Gaye Wazu Ka Hukum?

دہ در دہ سے کم ٹینکی میں گوہ گر کر مر گئی تو پانی اور اس سے کئے گئے وضو کا حکم؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2812

تاریخ اجراء:07ذوالحجۃالحرام1445 ھ/14جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دہ در دہ ( دو سو پچیس اسکوائر فٹ )سے کم ٹینکی  میں گوہ گر کر مر گئی ۔اس کا جسم پھولا پھٹا نہیں ۔جیسے ہی اس کے گرنے کا علم ہوا اس کو نکال لیا تو(1) اب اس ٹینکی کے پانی کو پاک کیسے کریں ۔اور(2)گوہ نکالنے  سے پہلے اس پانی سے وضو وغیرہ کیا ہو تو اس کا کیا حکم ہے،کب سے اس پانی کو ناپاک مانیں  گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)ایسی صورت میں اس کا سارا پانی ناپاک ہو جائے گا۔کیونکہ گوہ میں بہتا خون ہوتا ہے اور  خشکی کا  وہ جاندار جس میں بہتا  خون ہو ،وہ قلیل پانی (دو سو پچیس اسکوائر فٹ سے کم ) میں گر کر مر جائے تو وہ پانی  ناپاک ہو جاتا ہے ۔ اس کو پاک کرنے کے لیے اولاگوہ کونکالناضروری ہے پھرایک یہ طریقہ اپنایاجاسکتاہے کہ :موٹر چلا کر پانی ٹینکی میں ڈالنا شروع کریں ، جب ٹینکی بھر کرپانی نکلناشروع ہوجائے اورزمین پرکچھ دوربہہ جائے توساری ٹینکی پاک ہوجائے  گی اوربہتریہ ہے کہ اس قدرپانی نکلنے دیں کہ دوڈیڑھ ہاتھ لمبائی میں بہہ جائے ۔

   چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:”الحيوان إذا مات في المائع القليل ۔۔۔۔ إن كان له دم سائل فإن كان بريا ينجس بالموت وينجس المائع الذي يموت فيه، سواء كان ماء أو غيره، وسواء مات في المائع أومات في غيره، ثم وقع فيهترجمہ: جاندار جب قلیل مائع چیز میں مر جائے ۔۔۔اگر اس میں بہتا خون ہوااور وہ خشکی کا ہے ، تو وہ مرنے سے ناپاک ہوجائے گا اور جس مائع چیز میں وہ مرا اس کو بھی ناپاک کردے گا خواہ وہ پانی ہو یا پانی کے علاوہ کوئی اور مائع چیز ، چاہے وہ مائع چیز میں مرا ہو یا پھرباہرمر کر مائع چیز میں گر گیا ہو۔(بدائع الصنائع، جلد1،صفحہ 426،427،مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے”حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر كان الفقيه أبو جعفر - رحمه الله - يقول: كما سال ماء الحوض من الجانب الآخر يحكم بطهارة الحوض وهو اختيار الصدر الشهيد - رحمه الله -. كذا في المحيط وفي النوازل وبه نأخذ كذا في التتارخانية“ترجمہ:چھوٹے حوض کا پانی ناپاک ہوگیا تو حوض کی ایک جانب سے پاک پانی حوض میں داخل کیا گیا اور دوسری جانب  سے حوض کا پانی بہہ گیا تو فقیہ ابو جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسے ہی حوض کا پانی دوسری جانب سے بہہ گیا ،حوض کے پاک ہونے کا حکم ہوگا،یہی صدر الشہید رحمہ اللہ کا اختیار کردہ ہے ،جیسا کہ محیط میں ہے اور نوازل میں ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے۔(فتاوی ھندیۃ،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 17،دار الفکر،بیروت)

   جد الممتار میں ہے” حوض صغير تنجس ثم دخله الماء حتى سال طهر“ترجمہ:چھوٹا حوض ناپاک ہوگیا ،پھر اس میں پانی داخل ہوا حتی کہ اوپر سے بہہ گیا تو حوض پاک ہو جائے گا۔(جد الممتار،کتاب الطھارۃ،ج 2،ص 59،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (2) جس وقت ٹینکی کے اندر مر ی ہوئی گوہ کو دیکھا گیا ، اس وقت سے اس ٹینکی کا پانی ناپاک قرار دیا جائے گا اور اس سے پہلے  وضو و غسل کر کے جو نمازیں ادا کی گئیں ، وہ ادا ہو گئیں ہیں، البتہ ایک دن رات کی نمازوں کا اعادہ کر لینا بہتر ہے ۔

   اگر کنوئیں میں کوئی نجاست گر گئی، لیکن اس کے گرنے کا وقت معلوم نہ ہو ، تو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے درمختار میں ہے:” وقالا: من وقت العلم فلا یلزمھم شئی قبلہ وقیل بہ یفتی“ ترجمہ: صاحبین فرماتے ہیں  کہ اس صورت میں جس وقت کنویں میں نجاست گرنے کا علم ہوا، اسی وقت سے کنویں کو ناپاک مانا جائے گا اور اس سے پہلے کے متعلق ان پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا اور یہی مفتی بہ قول ہے۔(الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد1، صفحہ420، کوئٹہ)

   کنویں میں ایک ناپاک چیز گر گئی، تو اس کے احکام بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اور جو یہ امر متحقق نہ ہو سکے (یعنی  اس نجاست کے گرنے کا وقت معلوم نہ ہو سکے۔) تو کنواں اس وقت سے ناپاک ٹھہرے گا، جب سے وہ نال اس میں دیکھا گیا، اس سے پہلے کے وضو اور غسل اور نمازیں سب درست اور بدن اور برتن اور کپڑے سب پاک۔(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ266، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جانور پھولا پھٹا نہ ہو ، تو پھر ایک دن رات کا اعادہ کر لیا جائے ،چنانچہ فتاویٰ ہندیہ  میں ہے: ” وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولا يدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها “ ترجمہ: جب کنویں میں چوہا وغیرہ (مرا ہوا ) پایا گیا اور اس کے گِرنے کا وقت معلوم نہ ہو اور نہ ہی وہ پھولا ہو ، تو ایک دن رات کی نمازوں کا اعادہ کریں گے ، جب اس کنویں سے وضو کیا ہو ۔(الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الطھارۃ ، جلد 1 ، صفحہ 20 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   اور یہ اعادہ واجب نہیں ، صرف بہتر ہے ، جیسا کہ جانور کے پھول پھٹ جانے والی صورت سے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی ٰعلیہ سے سوال ہوا : ”ایک کنواں ہے جس کا پانی کبھی نہیں ٹوٹتا، اس میں سے ایک چوہا پھولا ہوا بدبودار نکلا، اب اس کے پاک کرنے کی کیا صورت ہے اور ایسی صورت میں نماز لوٹائی جائے گی یا نہیں؟ اگر لوٹائی جائے گی تو کَےدن کی؟ مفتیٰ بہ قول تحریر فرمائیں۔“ اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا : ”پانی توڑنے کی کوئی حاجت نہیں، جتنا پانی اس میں موجود ہے، اتنے ڈول نکال دیں، پاک ہو جائے گا۔ تین دن رات کی نماز کا اعادہ بہتر ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ294، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم