Farz Ghusl Mein Bhole Se Koi Uzw Dhulne Se Reh Jaye Tu Ghusl Aur Namaz Ka Hukum

فرض غسل میں بھولے سے کوئی عضو دھلنے سے رہ جائے تو غسل اور پڑھی گئی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12624

تاریخ اجراء: 02جمادی الاخری1444 ھ/26دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فرض غسل میں کسی عضو کو دھونا بھول گیا اورفجر کی  نماز پڑھ لی، بعد میں اسے یاد آیا تو کیا اب اسے دوبارہ سے پورا غسل کرنا ہوگا ؟ یا پھر اسی عضو کو دھولینا کافی ہوگا۔ نیز جو نمازِ فجر پڑھی اس کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط طہارت ہے ، اس کے بغیر نماز ادا ہی نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں جبکہ ایک عضو دھلنے سے رہ گیا  تھا تو طہارت حاصل نہیں ہوئی جس کی بنا پر وہ نمازِ فجر سرے سے ادا ہی نہیں ہوئی،پس  اس شخص پر لازم ہے کہ پاکی حاصل کرنے کے بعد اس نمازِ فجر کی قضا ادا کرے۔

    البتہ اب نئے سرے سے پورا غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ جو عضو دھونا بھول گیا تھا ، اس عضو کو دھولینا ہی کافی ہے۔

   چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:’’  جاء رجل الى النبی صلى الله عليه وسلم، فقال : انی اغتسلت من الجنابة  وصليت الفجر، ثم اصبحت  فرايت قدر موضع الظفر  لم يصبه الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لو كنت مسحت عليه بيدك  اجزاك‘‘یعنی  ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی:میں نے جنابت کا غسل کیا اور نماز فجر ادا کی،پھر صبح میں نے دیکھا کہ ناخن برابر جگہ کو پانی نہیں پہنچا تھا۔پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم وہاں ہاتھ پھیر لیتے،تو کافی ہوتا۔“(سننِ ابنِ ماجہ،باب من استغسل من الجنابۃالخ،ج01،ص218،دار احیاء الکتب العربیۃ)

   مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” یعنی اگرغسل کے وقت وہاں ہاتھ پھیرلیتے، تو پانی بہہ جاتایاغسل کے بعدوضو وغیرہ کے وقت ہاتھ پھیر کر پانی بہا لیتے،تو بھی کافی ہوتا،اب وہ جگہ دھوؤ اورنمازدوبارہ پڑھو۔حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس جگہ پر صرف مسح کافی تھا،پانی بہانے کی حاجت نہیں،کیونکہ غسل میں سارے جسم پر پانی بہانا فرض ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرغسل کا کوئی عضو سوکھا رہ گیا اوربہت دیر کے بعدپتا لگے،تووہ دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں، بلکہ صرف وہ جگہ دھودینا کافی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ج01،ص306، نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   جنبی شخص کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول جائے اور نماز پڑھ لے تو اس رہ جانے والے فرض کو ادا کرکے دوبارہ سے وہ نماز پڑھے۔ جیسا کہ الاصل للامام محمد بن الحسن الشیبانی میں ہے:’’ قلت:ارايت رجلا توضا ونسى المضمضة والاستنشاق او كان جنبا فنسى المضمضة والاستنشاق،ثم صلى؟قال: اما ما كان فی الوضوء فصلاته تامة واما ما كان فی غسل الجنابة او طهر حيض فانه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة‘‘یعنی امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے( امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ  سے) عرض کیا کہ ایسے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے وضو کیا اور وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیایا جنبی تھا اور کلی کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا،پھر نماز پڑھ لی؟تو (امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے )فرمایا: وضو میں ایسا ہوا،تو اس کی نماز مکمل ہے اورجنابت یا حیض سے پاکی والے غسل میں ایسا ہوا،تو  کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور نماز بھی دوبارہ پڑھے۔(الاصل للامام محمد بن الحسن الشیبانی ، کتاب الصلاۃ، ج01،ص33-32،مطبوعہ مردان)

   غنیۃ المستملی میں اس حوالے سے مذکور ہے:”(ولو بقی شیء من بدنہ لم یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ وان قل ۔۔۔ وشرب الماء یقوم مقام المضمضۃ و بلغ الماء الفم کلہ والا فلا، ولو ترکھا)ای ترک المضمضۃ او الاستنشاق او لمعۃ من ای موضع کان من البدن( ناسیا فصلی ثم تذکر)ذلک (یتمضمض)او یستنشق او یغسل اللمعۃ(ویعید ما صلی)ان کان فرضا لعدم صحتہ وان کان نفلا فلا،لعدم صحۃ شروعہ‘‘یعنی اگر (فرض غسل کرنے والے کے)بدن کا کچھ حصہ پانی بہنے سے  رہ گیا تو وہ جنابت سے نہیں نکلے گا،اگرچہ وہ حصہ بالکل تھوڑا ہو اور(کلّی نہ کرنے کی صورت میں) پانی پینا کلی کے قائم مقام ہو جائے گا،جبکہ پانی پینے میں پورے منہ میں پانی پہنچ جائے،ورنہ نہیں اور اگر کلّی یا ناک میں پانی چڑھانا یا کسی بھی جگہ سے بدن کا کوئی حصہ دھونا بھول گیا اور نماز پڑھ لی،پھر یاد آیا،تو کلی کرےیا ناک میں پانی چڑھائے یا  اس حصہ کو دھو لے اور نماز دوبارہ پڑھے ،جبکہ وہ فرض نماز ہو،کیونکہ وہ درست ہی نہ ہوئی اور اگر نفل نماز ہو،تو دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں،کہ اس کی ابتدا ہی درست نہ ہوئی۔( غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ،ص44،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مصلّی کے بدن کا حدث اکبر و اصغر اور نجاست حقیقیہ قدر مانع سے پاک ہونا (نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ہے)۔“ (بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 476، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملخصاً)

   صدر الشریعہ  مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” اگر بکر جنب تھا یعنی اس پر غسل فرض تھا اور کلی کرنا بھول گیا تو طاہر نہ ہوا کہ غسل کا ایک فرض اس کے ذمے باقی رہ گیا۔ پھر اگر غسل کے بعد وضوئے جدید کیا جیسا کہ اکثر لوگ کرلیتے ہیں اور اس وضو میں کلی کرلی تو پاک ہوگیا، تمام نمازیں ہوگئیں۔ اور اگر کلی نہ کی تو اب بھی ناپاک ہی ہے، جب تک کلی نہ کرے گا پاک نہ ہوگا اور جب کلی کرلے گا جنابت دور ہوجائے گی۔ پھر اگربکر  نے پانچوں نمازیں بغیر وضو کئے ہوئے اور بغیر کلی کے ادا کی ہیں جیسا کہ سوال سے یہی ظاہر ہے تو کوئی نماز ادا نہ ہوئی۔(فتاوٰی  امجدیہ، ج01، صفحہ 11-10، مکتبہ رضویہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم