Ghusal Ke Baad Jisam Par Mail Baqi Reh Jae Tu Kya Hukum Hai ?

غسل کے بعد جسم پر جمےہوئے میل کا علم ہوا، تو پہلے والے غسل و نمازوں کا حکم

مجیب: مفتی ابومحمدعلی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Faj-7106

تاریخ اجراء:       21شوال المکرم  1443 ھ/23 مئی   2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض دفعہ  بغل  یا جسم کے کسی اور حصہ پر  جسم  کے میل کی تہ جمی ہوئی ہوتی ہے ، انسان کی توجہ نہیں جاتی  ، اس کو ہٹائے بغیر ہی وہ   فرض غسل کرلیتا ہے ،اس کے بعد نمازیں وغیرہ بھی ادا کرتا رہتا ہے ،بعد میں اس کو پتہ چلتا ہے کہ  اس کے جسم پر  فلاں جگہ غسل سے پہلے سے ہی  میل جما ہوا ہے ، تو ایسی صورت میں  اس کا پہلے کیا ہوا  غسل ادا ہوا یا نہیں ؟ اس نے جو نمازیں پڑھیں  ، وہ ادا ہوئیں یا نہیں ؟ نیز اب جب اس کو علم ہوگیا ہے ،تو اس کے لیے   کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بعض اوقات جسم کے کسی حصے پر ایسی چیز جمی ہوتی ہے کہ جسے زائل کرنے میں  ضرر یا  مشقت  ہوتی ہے،مثلا :پان کھانے والے افراد کے دانتوں کی جڑوں میں جما ہوا سخت قسم کا چُونا اور عورتوں کے دانتوں میں مسی کی جمی ہوئی  ریخیں وغیرہ ۔ فرض غسل   میں ان کو  زائل کرنے کا حکم نہیں ،  ان کو زائل کیے بغیر ہی  فرض غسل ہوجائے گا اور بعض دفعہ  ایسی چیز جمی ہوتی ہے  کہ اس کو زائل  کرنے میں ضرر یا مشقت  تو  نہیں، لیکن وہ  ایسی چیز ہوتی ہے کہ  عموما ً یا خصوصاً بندے کا   اس سے  واسطہ  پڑتا ہے ، اس کی مکمل نگہداشت   اور اس کے لگے ہونے  یا نہ لگے ہونے پر مسلسل  نظر رکھنا  دشوار اور حرج  کا باعث  ہوتا ہے،مثلا :مچھر یا مکھی کی بیٹ، پکانے  یاگوندھنے والے کے لیے  آٹا، مزدور کے لیے گارا مٹی ، عام لوگو ں کے لیے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جِرم  وغیرہ ۔ فرض غسل میں ایسی چیزوں کے متعلق  حکم یہ ہوتا ہےکہ غسل سے پہلے اگر  معلوم ہوجائیں، تو ان کو زائل کرنا ہوگا ، اگر  غسل سے پہلے ان چیزوں کے لگے رہنے  کا علم نہیں ہوا  اور  اسی حالت میں غسل کرلیا ، تو غسل ادا ہوجائے گا ، اس  کے بعد نمازیں ادا کیں،  وہ بھی ہوجائیں گیں ، البتہ  جب ان چیزوں کے لگے رہنے کا علم ہوجائے ،تو ان کو زائل کرکے  جسم کےاس حصہ پر پانی بہانا ضروری ہوگا ،  علم کے بعد   ان کو  زائل کر کے جسم  کے اس حصہ پر پانی  نہیں  بہایا،  تو  آئندہ  نمازیں  ادا نہیں ہوں گی ۔

   جسم پر موجود  میل  کی بھی اگر پہلے والی صورت   ہے یعنی  اتنا زیادہ اور سخت قسم کا  میل  جم چکا ہے کہ  اب اس کو زائل کرنا  ضرر  یا مشقت  کا باعث ہے، تو  جب تک یہی کیفیت رہتی ہے فرض غسل میں اس کو  زائل کرنے کا حکم نہیں ، بعض لوگوں کو کالے دھبے کی  صورت میں میل مستقل جمنے کی شکایت ہوتی ہے اور صابن تک سے یہ زائل نہیں ہوتا، کسی کے پنجے اور کسی کی گردن میں ایسا میل جمنا پایا جاتا ہے، ممکن ہے دیگر جگہوں پر بھی پایا جاتا ہو۔اس قسم کے میل کو زائل کیے بغیر ہی غسل کرلیا جائے ، طہارت حاصل ہوجائے گی اور  اگر بدن پر موجود میل کی  صورت  یہ ہے کہ  پتا چل جائےکہ اس کو بآسانی زائل کیا جاسکتا ہے،تو پھر اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  اگر غسل سے پہلے علم ہوجائے ،تو اس کو زائل کرنا ہوگا  ،  جبکہ میل ایسی کیفیت میں ہو کہ جِلد پر پانی پہنچنے سے مانع ہو ، اگر غسل سے پہلے پتا نہیں چلا اور یونہی غسل کرکے نمازیں  بھی ادا کرلیں، تو   ادا کی گئی نمازیں  ہوگئیں  ، جب اس میل کے لگے  ہونے کا علم ہوگا  ، اس وقت اس کو زائل کرکے  جسم کے اس حصہ پر پانی بہانا ہوگا، ورنہ آگے نمازیں  ادا نہیں  ہوں گی، کیونکہ اس صورت میں  میل کو زائل کرنے میں اگرچہ   ضرر و مشقت  نہیں ہے، لیکن بدن کا میل عموماً انسان  کے جسم میں لگا ہوتا ہے ،اس کی نگہداشت میں ضرور حرج ہے ، ایسی صورت میں مذکورہ حکم ہی ہوتا ہے۔

   پہلی صورت کے متعلق درمختار میں ہے :(لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة) يندب هو الاصح قاله الكمال وعلله بالحرج ۔۔۔(وكفى بل اصل ضفيرتها) اى شعر المراة المضفور للحرجیعنی  جس  کو دھونے میں حرج ہو  اس کو دھونا واجب نہیں،جیساکہ  آنکھ کا ڈھیلا،  اگرچہ نجس سرمہ ہی کیوں نہ لگایا ہو  اور عورت کے ناک اور کان کے  وہ سوراخ جو  بند ہوچکے ہوں  اور  غیر مختون کا  کھال کے اندرونی  حصہ کو دھونا، البتہ اس  اندرونی حصہ کا دھونا مستحب ہے ،  اس کی تصحیح  صاحب فتح القدیر نے کی اور اس کی علت حرج بیان کی ہے ، عورت کا گندھے ہوئے بالوں  کی جڑوں  کو تَرْ کرلینا کافی ہے (مکمل بال کھول کر  نوک تک  تر کرنا ضروری نہیں ) حرج کی وجہ سے ۔(درمختار، جلد1، صفحہ 313،314،315، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے :”ہاں اگر اُس کے جُدا کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو، جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کر متحجرہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑ دے ،چھڑانے کے قابل نہیں ہو تا یاعورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑھوں کی مضرت کا اندیشہ ہے، تو جب تک یہ حالت رہے گی اس قدر کی معافی ہوگی۔’’ فان الحرج مدفوع بالنص (فتاوی رضویہ، جلد1، صفحہ  441، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اور مقام پر ہے :”حرج کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو ،جیسے آنکھ کے اندر۔ دوم مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں، مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے، جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا، گرہ کھایا ہوا بال۔ قسمِ اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسمِ سوم میں بعدِ اطلاع ازالۂ مانع ضرور ہے، مثلا :جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ(دِکھ) پائی، تو اب یہ نہ ہو کہ اسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھُڑالے کہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھابعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی۔’’ ومن المعلوم ان ماکان لضرورۃ تقدربقدرھا‘‘(ترجمہ:اور یہ بات معلوم ہے کہ جو حکم کسی ضرورت کے باعث ہو ،وہ قدر ضرورت ہی کی حد پر رہے گا)۔“(فتاوی رضویہ،جلد1،صفحہ455،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   دوسری صورت کے متعلق درمختار میں ہے: ”(و لایمنع) الطھارۃ (ونیم) ای خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ (وحناء)  ولو جرمہ، بہ یفتی،( ودرن و وسخ) “ ترجمہ: طہارت سے مانع نہیں ہوتی مکھی اور پسو کی وہ بیٹ کہ جس کے نیچے پانی نہ پہنچے ، اور مہندی اگر چہ جِرم دار ہو ، اسی پر فتوی ہے ۔اور بدن کا میل بھی مانع نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار،جلد1،ص316، مطبوعہ کوئٹہ )

   ’’لم یصل تحتہ‘‘ کے تحت  ردالمحتار میں ہے :لان الاحتراز عنہ غیر ممکن کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔(ردالمحتار علی الدرالمختار ،جلد1،صفحہ316، مطبوعہ کوئٹہ )

   جدالممتار میں ہے : ان الذی لا حرج فی ازالتہ بل فی تعاھدہ  اذا اطلع  علیہ یجب ازلتہ ولا یجوز ترکہ  کالحناء والکحل والونیم ونحوھا ایسی چیزیں  جن کو زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ  ان کی نگہداشت میں حرج ہے،  ان میں  جب اطلاع ہوجائے گی ، تو ان کو زائل  کرنا  لازم ہوگا  ، ایسے چھوڑ  دینا جائز نہیں ہوگا،  جیساکہ  مہندی، سرمے اور بیٹ وغیرہ کا حکم ہے۔(جد الممتار، جلد1، صفحہ 455، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   ایک اور مقام پر فتاوی رضویہ میں ہے:” جس  چیز کی آدمی کو عموما یا خصوصا ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کے ملاحظہ واحتیاط میں حرج ہے ،اس کا ناخنوں کے اندر یا اوپر یا اور کہیں لگا رہ جانا اگر چہ جِرم دار ہو ،اگر چہ پانی اس کے نیچے نہ پہنچ سکے ، جیسے پکانے گوندھنے والوں کے لیے آٹا، رنگریز کے لیے رنگ کا جِرم ، عورات کے لیے مہندی کا جِرم ، کاتب کے لیے روشنائی ، مزدور کے لیے گارا مٹی ، عام لوگو ں کے لیے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جِرم ، بد ن کا میل مٹی غبار ، مکھی مچھر کی بیٹ وغیرہا کہ ان کا رہ جانا فر ض اعتقادی کی ادا کو مانع نہیں ۔“(فتاوی رضویہ، جلد1،جزء الف، صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے :” پکانے والے کے ناخن میں آٹا، لکھنے والے کے ناخن وغیرہ پر سیاہی کا جِرم، عام لوگوں کے لیے مکّھی مچھر کی بیٹ اگر لگی ہو، تو غُسل ہو جائےگا۔ ہاں بعد معلوم ہونے کے جدا کرنا اور اس جگہ کو دھونا ضروری ہے، پہلے جو نماز پڑھی ہوگئی۔ “(بھار شریعت، جلد1، صفحہ 319، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم