Ghusal Se Pehle Wazu Karna

غسلِ جنابت سے پہلے وضو کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12330

تاریخ اجراء:        03 محرم الحرام 1444 ھ/02 اگست 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  غسلِ جنابت سے پہلے وضو کرنا سنتِ مؤکدہ ہےیا غیر مؤکدہ ؟      

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غسلِ جنابت سے پہلے وضو کرنا سنتِ مستحبہ ہے ،سنتِ مؤکدہ نہیں ہے۔

   بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ،فرمایا:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ن اذا اغتسل من الجنابۃ بدا فغسل یدیہ ثم توضا کما یتوضا للصلاۃ ثم یدخل اصابعہ فی الماء فیخلل بھا اصول الشعر ثم یصب علی راسہ ثلاث غرف بیدہ ثم یفیض الماء علی جلدہ کلہ“یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت سے غسل فرماتے ،تو سب سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے ، پھر نماز جیسا وضو فرماتے ، پھر اپنی انگلیاں  پانی میں ڈالتے اور ان کے ذریعہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچاتے، پھر تین چلو پانی اپنے سر پر بہاتے پھر پورے جسم پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری،جلد1،صفحہ 39،مطبوعہ:کراچی)

   نزھۃ القاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے تحت فقیہ اعظم مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غسل سے پہلے دونوں ہاتھوں کو دھونا سنت ہے، وضو کرنا مستحب ہے(نزھۃ القاری، جلد1،صفحہ 739،فرید بک سٹال، لاہور)

   احکام القرآن للجصاص میں ہے:”ان لم یفرد الوضوء قبل الاغتسال فقد اتی بالغسل علی وضوء لانہ اعم منہ ،فان قیل :توضاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل الغسل ،قیل لہ:ھذا یدل علی انہ مستحب مندوب الیہ“یعنی اگر غسل  کرنے سے پہلے الگ سے وضو نہیں کیا، تو بھی غسل کے ساتھ وضو ادا ہوگیا،کیونکہ یہ اس سے عام ہے، پس اگر کہا جائے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل سے پہلے وضو فرمایا؟تو جواب دیا جائے گا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس کے مستحب و مندوب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔(احکام القرآن للجصاص، جلد 3،صفحہ 375،مطبوعہ:بیروت)

   تیس سے زائد مقامات پر وضو کرنامستحب ہے،غسلِ جنابت سے پہلےوضو کرنا بھی ان میں سے ایک ہے۔چناچہ درِمختار میں ہے:”مندوب فی نیف و ثلاثین موضعا ذکرتھا فی الخزائن“یعنی تیس سے زیادہ مقامات پر پر وضو کرنا مستحب ہے ،ان کو میں نے خزائن میں ذکر کردیا۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:”منھا عنداستیقاظ من نوم ولمداومۃ علیھا وللوضوء علی الوضوء اذا تبدل المجلس وغسل میت وحملہ ولوقت کل صلاۃ وقبل غسل جنابۃ“یعنی ان میں سے بعض مقامات یہ ہیں:نیند سے بیدار ہونے کے وقت ، وضو پر مداومت کے لئے ، وضو پر وضو کرنے کے لئے بشرطیکہ مجلس بدل گئی ہو،میت کو غسل دینے یا اٹھانے کے وقت ،ہر نماز کے وقت کے لئے اور غسلِ جنابت سے پہلے۔    (ردالمحتار علی الدر المختار، جلد1،صفحہ 206،مطبوعہ:کوئٹہ)

   بحر الرائق ودرِ مختار میں ہے:”لو توضا اولا لا یاتی بہ ثانیا لانہ لایستحب وضوءان للغسل اتفاقا“یعنی اگر کسی نے ابتدا میں وضو کر لیا ، تو دوبارہ وضو نہیں کرے گا، کیونکہ ایک غسل کے لئے دو وضو بالاتفاق مستحب نہیں ہیں۔(الدرالمختار مع رد المحتار، جلد1،صفحہ 323، مطبوعہ:کوئٹہ)

   صاحبِ درِ مختار و بحر کی عبارت کی سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں غسلِ جنابت سے پہلے وضو کرنا مستحب عمل ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم