Ghusl Farz Hone Ki Halat Mein Jism Ka Hissa Pani Mein Jane Se Pani Mustamal Hona

غسل فرض ہونے کی حالت میں جسم کا کوئی حصہ پانی میں پڑجانے پر پانی کے مستعمل ہونے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12887

تاریخ اجراء: 07ذو الحجۃ الحرام1444 ھ/26جون 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ جس پر غسل فرض ہو ، کیا اس کے جسم کا کوئی سا بھی بے دھلا حصہ پانی میں پڑنے  سے وہ پانی مستعمل ہوجائے گا یا پھر اعضائے وضو میں سے کوئی عضو پانی میں پڑنے سے وہ پانی مستعمل ہوگا؟ اس میں درست مسئلہ کیا ہے؟  رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس پر غسل فرض ہو ،چونکہ اس کے پورے جسم پر ہی حدث طاری ہوتا ہے لہذا بے غسلے شخص کے جسم کا کوئی بھی بے دھلا حصہ قلیل پانی مثلاً پانی سے بھری ہوئی بالٹی یا لوٹے وغیرہ میں پڑجائے  تو وہ  پانی مستعمل ہوجائے گا اور وضو و غسل کے قابل نہیں رہے گا۔

یاد رہے کہ مستعمل پانی سے مراد وہ پانی ہے جسے قربت کے ارادے سےیا پھر حدث دور کرنے کے لئے استعمال کیا گیاہو، لہذا بدن کے جس حصہ کے ساتھ حدث کا تعلق ہوتا ہے  وہ حصہ جب بغیر دھوئے قلیل پانی میں پڑے گا تو اتنے حصہ سے حدث دور ہوگا  اور وہ پانی مستعمل ہوجائے گا،  اس سے وضو یا  غسل جائز نہ ہوگا۔

مستعمل پانی کی تعریف تنویر الابصار مع الدرالمختار میں یوں مذکور  ہے :”ماء (استعمل ل) اجل (قربۃ) ۔۔۔( أو) لاجل (رفع حدث) “یعنی مائے مستعمل سے مراد وہ پانی ہے جسے نیکی   یا حدث دور کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔(تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الطہارۃ،باب المیاہ،ج01،ص198،مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ مستعمل پانی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کرکے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے ۔۔۔۔۔ محدث نے تمام یا بعض اعضائے وضو دھوئے اگرچہ بے نیت وضو محض ٹھنڈ یا میل وغیرہ جُدا کرنے کیلئے یا اُس نے اصلا کوئی فعل نہ کیا ، نہ اُس کا قصد تھا بلکہ کسی دوسرے نے اُس پر پانی ڈال دیا جو اُس کے کسی ایسے عضو پر گزرا جس کا وضو یا غسل میں پاک کرنا ہنوز اس پر فرض تھا مثلاً محدث کے ہاتھ یا جُنب کی پیٹھ پر تو ان سب صورتوں میں شکل اول کے سبب پانی مستعمل ہوگیا کہ اس نے محل نجاست حکمیہ سے مس کرکے اُتنے ٹکڑے کی تطہیر واجب کو ذمہ مکلف سے ساقط کردیا۔“    (فتاوٰی رضویہ، ج 02، ص 44-43، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جس شخص پر نہانا فرض ہے اس کے جِسْم کا کوئی بے دُھلاہوا حصہ پانی سے چھو جائے تو وہ پانی وُضو اور غُسل کے کام کانہ رہا۔ اگر دُھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصہ پڑ جائے تو حَرَج نہیں۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 333، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”بے وضو کے اعضائے وضو میں سے کوئی عضو اگرچہ انگلی یا پورا یا ناخن اور جنب اور وہ حائض یا نفساء جو حیض و نفاس سے پاک ہوچکی ہے، مگر ابھی غسل نہیں کیا ہے، ان کا کوئی عضو بے دھلا ہوا اگر ماء قلیل یعنی دہ در دہ سے کم غیر جاری میں پڑجائے، تو وہ سارا پانی مستعمل ہوگیا، جبکہ بغیر ضرورتِ شرعیہ پڑا ہو، اور وہ پانی وضو یا غسل کے قابل نہ رہا۔۔۔پانی کے مستعمل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک وضو یا غسل میں نیت شرط نہیں، لہذا جس حصہ بدن کے ساتھ حدث کا تعلق ہے، وہ جب پانی سے ملاقی ہوگا، تو اتنے سے حدث مرتفع ہوجائے گا، اور جب اس پانی نے رفع حدث کیا تو مستعمل ہوگیا کہ مستعمل ہونے کے لئے نیت رفع حدث شرط نہیں۔ (فتاوٰی  امجدیہ، ج01، ص 14، مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم