Ghusl Karne Ke Baad Dobara Mani Nikle Tu Ghusl Ka Hukum

غسل کرنے کے بعد دوبارہ منی نکلے تو غسل کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2511

تاریخ اجراء: 18شعبان المعظم1445 ھ/29فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر ہمبستری کے بعد  غسل کرلیا ہو،اور پھر     اس کے بعد بغیرشہوت کے کچھ منی نکلی تو اب دوبارہ سے غسل کرنا لازم ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر  ہمبستری کے بعد کوئی ایساعمل کرنے سے پہلے ہی غسل کرلیاکہ جس کی وجہ سے یہ اطمینان ہوجاتاکہ منی کے رکے ہوئے قطرے نکل چکے ہیں مثلا پیشاب کرنے یا   سونے یااتنےزیادہ قدم چلنے سے پہلے ہی(کہ جن سے اطمینان ہوجاتا) فرض غسل کرلیا  ،اور  پھر غسل کے بعد بغیرشہوت کے کچھ منی نکلی  ،تو اب  اس کے نکلنے پر دوبارہ سے غسل کرنا لازم ہوگا ، کیونکہ یہ  اسی پہلے والی منی ہی کا     بقیہ حصہ ہے ، جو شہوت کے ساتھ اپنے مقام سے جداہوئی تھی،البتہ  اس کے نکلنے سے پہلے اگر نماز پڑھی ہو تو وہ نماز ہو گئی ،اس کے اعادے (دہرانے)کی حاجت نہیں۔

   اوراگر کوئی ایساعمل کرنےکے بعد غسل کیاکہ جس کی وجہ سے یہ اطمینان ہوگیاکہ اگرمنی کاکوئی قطرہ رکاہو ا ہوتا تو نکل جاتا مثلا پیشاب کرنے یا   سونے یااتنے زیادہ قدم چلنے کے بعد(کہ جن سے اطمینان ہوجائے)غسل کیا ،تو  اب بغیرشہوت کے منی کے قطرے   نکلنے     پر دوبارہ     سے    غسل فرض  نہیں ہوگا،اور اسے پہلی والی منی  کا     بقیہ حصہ نہیں کہا جائے گا۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’لو اغتسل من الجنابة قبل أن يبول أو ينام وصلى ثم خرج بقية المني فعليه أن يغتسل عندهما خلافا لأبي يوسف رحمه الله تعالى  ولكن لا يعيد تلك الصلاة في قولهم جميعا. كذا في الذخيرة، ولو خرج بعد ما بال أو نام أو مشى لا يجب عليه الغسل اتفاقا۔ كذا في التبيين‘‘ ترجمہ:اگر کسی نے  پیشاب کرنے یا سونے سے پہلے،غسل جنابت کیا،اور نماز پڑھی پھر  اس کے بعد بقیہ منی خارج ہوئی، تو طرفین کے نزدیک اس پر (دوبارہ)غسل کرنا لازم ہوگا،برخلاف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے،لیکن تمام فقہاء کے قول کے مطابق   وہ  نماز کا اعادہ نہیں کرے گا ،یونہی ذخیرہ میں ہے،اور اگر پیشاب کرلینے یا  سونے یا چلنے کے بعد منی خارج ہوئی  تو اب بالاتفاق اس پر غسل واجب نہیں ہوگا،اسی طرح تبیین میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،ج 1،باب الغسل،ص 17،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:’’اگر مَنی کچھ نکلی اور قبل پیشاب کرنے یا سونے یا چالیس قدم چلنے کے نہا لیا اور نماز پڑھ لی اب بقیہ مَنی خارِج ہوئی تو غُسل کرے کہ یہ اسی مَنی کا حصہ ہے جو اپنے مَحل سے شَہوت کے ساتھ جدا ہوئی تھی اور پہلے جو نماز پڑھی تھی ہو گئی اس کے اعادہ کی حاجت نہیں اور اگر چالیس قدم چلنے یا پیشاب کرنے یا سونے کے بعد غُسل کیا پھر مَنی بلا شَہوت نکلی تو غُسل ضروری نہیں اور یہ پہلی کابقیّہ نہیں کہی جائے گی۔(بھار شریعت،جلد1، حصہ2، صفحہ 321،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم