Ghusl Me Kulli Ya Naak Me Pani Dalna Bhool Gaye To

غسل میں کلی یا ناک میں چڑھانا بھول گئے تو پڑھی گئی نمازوں کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6903

تاریخ اجراء: 12رجب المرجب1443ھ/14فروری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر فرض غسل میں فقط کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنایا دونوں ہی  بھول جائیں اور نماز پڑھنے کے بعد یاد آئے،تو اس نماز کا کیا حکم ہے ؟نیز اب نئے سرے سے غسل کرنا ضروری ہوگا یا جو فرض رہ گیا تھا،فقط اسے ادا کرنا کافی ہوگا؟اور اگر وضو کرنے کے بعدیہی صورت پیش آجائے،تو اب کیا حکم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سوال کا جواب جاننے سے قبل چند بنیادی باتیں سمجھ لیجئے:  

     ٭فرض غسل میں  بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے،انسان کو اس انداز سے غسل کرنا چاہیے کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے،اگر لاپرواہی کی وجہ سے کوئی حصہ دھلنے سے رہ گیا،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسا کرنے والے کو اِس کی وجہ سے  آگ کا عذاب دیا جائے گا۔

     ٭غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے،جبکہ وضو میں یہ دونوں سنت ہیں،لہذا غسل میں انہیں چھوڑنے کی وجہ سے غسل ہی نہیں ہوگااور وضو ان کے بغیر بھی ہوجائے گا،لیکن وضو میں بھی جان بوجھ کر انہیں  چھوڑنا منع ہے کہ سنت کا ترک ہے ۔

     ٭غسل میں کوئی عضو دھونے سے رہ گیا،تو فقط اسی  عضو کو دھولینا کافی ہے،دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں،لہذادورانِ غسل  کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا بھول گیا،لیکن بعد میں دونوں کام کر لئے یاوضو کر لیا،جیسا کہ کئی لوگ غسل کے بعد وضو کرلیتے ہیں اور وضو میں کلی کرلی  اور ناک میں پانی چڑھا لیا،تو اس سے بھی غسل کے دونوں  فرض ادا ہو جائیں گے،بلکہ اگر اس انداز سے پانی پی لیا کہ منہ کے تمام حصوں تک پہنچ گیا،تو کلی والا فرض اس سے بھی ادا ہو جائے گا۔

     اس تفصیل سے پوچھی گئی صورت کا جواب بھی واضح ہوگیا اور وہ یہ کہ  اگر کسی شخص نے فرض غسل کیا اور کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا دونوں  بھول گیااور اسی طرح نماز ادا کر لی،تو وہ ادا ہی نہ ہوئی،کیونکہ فرض رہ جانے کی وجہ سے  غسل ہی نہ ہوا،پس جب غسل نہ ہوا ،تو نماز بھی نہ ہوئی۔البتہ اگرنماز سے پہلے ویسے ہی یا وضو کیاااور اس میں چھوٹ جانے والے فرض ادا کر لیے یا کلی چھوٹ جانے کی صورت میں اس انداز سے پانی پیا کہ وہ منہ کے تمام حصوں تک پہنچ گیا،تو اس کے بعد ادا کی گئی نماز درست ہوئی،جبکہ وہ اپنی شرائط کے ساتھ ادا کی گئی۔اور وضو میں کلی نہ کی یا ناک میں پانی نہ چڑھایا اور نماز کے بعد یاد آیا،تو وہ نماز درست ہو گئی ،کیونکہ وضو کی سنت چھوٹ جانے کی وجہ سے وضو ہوجاتا ہے،پس جب وضو ہو گیا،تو نماز بھی ہوگئی ۔

     مذکورہ  بالا احکام کے بارے میں احادیثِ طیبہ :

     غسل میں بال برابر جگہ خشک رہ جانے سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار، قال علی: فمن ثم عاديت راسی ،فمن ثم عادیت راسی،فمن ثم عادیت راسی، وكان يجز شعرہ رضی اللہ عنہ‘‘ترجمہ: جس نے غسل جنابت میں بال برابر جگہ بھی ایسی چھوڑی کہ اسے دھویا نہیں،تو اس کے ساتھ آگ سے ایسے ایسے کیا جائے گا۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: پس اسی وجہ سے  میں نے اپنے سر سے دشمنی کر لی ہے۔یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔راوی فرماتےہیں:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بال منڈوادیا کرتے تھے۔(سننِ ابی داؤد،کتاب الطھارۃ،باب فی الغسل من الجنابۃ،ج1،ص45،مطبوعہ لاھور)

     غسل میں کلی نہ کی یا ناک میں پانی نہ چڑھایااور اسی طرح نماز پڑھ لی،تو اس بارے میں حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے ارشاد فرمایا:’’ان كان من جنابة اعاد المضمضة والاستنشاق واستانف الصلاة ‘‘ترجمہ:اگر جنابت  کا غسل ہو،تو کلی اور ناک میں دوبارہ پانی ڈال لے اور نئے سرے سے نماز ادا کرے۔(سننِ دارِ قطنی،ج1،ص207،مطبوعہ،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

     غسل میں کوئی عضو دھونے سے رہ گیا،تو بعد میں فقط اسی عضو کو دھو لینا کافی ہے۔چنانچہ  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں :’’ قال جاء رجل الى النبی صلى الله عليه وسلم، فقال:انی اغتسلت من الجنابة  وصليت الفجر، ثم اصبحت  فرايت قدر موضع الظفر  لم يصبه الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لو كنت مسحت عليه بيدك  اجزاك‘‘ترجمہ: ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی:میں نے جنابت کا غسل کیا اور نماز فجر ادا کی،پھر صبح میں نے دیکھا کہ ناخن برابر جگہ کو پانی نہیں پہنچا تھا۔پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم وہاں ہاتھ پھیر لیتے،تو کافی ہوتا۔(سننِ ابن ماجہ،باب من استغسل من الجنابۃ۔۔الخ،ج1،ص48،مطبوعہ کراچی)

     اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ یعنی اگرغسل کے وقت وہاں ہاتھ پھیرلیتے، تو پانی بہہ جاتایاغسل کے بعدوضو وغیرہ کے وقت ہاتھ پھیر کر پانی بہا لیتے،تو بھی کافی ہوتا،اب وہ جگہ دھوؤ اورنمازدوبارہ پڑھو۔حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس جگہ پر صرف مسح کافی تھا،پانی بہانے کی حاجت نہیں،کیونکہ غسل میں سارے جسم پر پانی بہانا فرض ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرغسل کا کوئی عضو سوکھا رہ گیا اوربہت دیر کے بعدپتا لگے،تووہ دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں، بلکہ صرف وہ جگہ دھودینا کافی ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص306،مطبوعہ  نعیمی کتب خانہ،گجرات)

     فقہی جزئیات:

     الاصل المعروف بالمبسوطِ للشیبانی میں ہے:’’ قلت:ارايت رجلا توضا ونسى المضمضة والاستنشاق او كان جنبا فنسى المضمضة والاستنشاق،ثم صلى؟قال: اما ما كان فی الوضوء فصلاته تامة واما ما كان فی غسل الجنابة او طهر حيض فانه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة‘‘ترجمہ:امام محمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ سے عرض کیا کہ ایسے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہےکہ جس نے وضو کیا اور وضو میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیایا جنبی تھا اور کلی اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا،پھر نماز پڑھ لی؟تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:بہر حال وضو میں ایسا ہوا،تو اس کی نماز مکمل ہے اورجنابت یا حیض سے پاکی والے غسل میں ایسا ہوا،تو  کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور نماز بھی دوبارہ پڑھے۔ (الاصل المعروف بالمبسوطِ للشیبانی،ج1،ص41،مطبوعہ کراچی)

     منیۃ المصلی اور اس کی شرح غنیۃ المتملی میں ہے:”بین الھلالین منیۃ المصلی (ولو بقی شیء من بدنہ لم یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ وان قل وشرب الماء یقوم مقام المضمضۃ اذا بلغ الماء الفم کلہ والا فلا، ولو ترکھا)ای ترک المضمضۃ او الاستنشاق او لمعۃ من ای موضع کان من البدن( ناسیا فصلی ثم تذکر)ذلک(یتمضمض)او یستنشق او یغسل اللمعۃ(ویعید ما صلی)ان کان فرضا لعدم صحتہ وان کان نفلا فلا،لعدم صحۃ شروعہ‘‘ترجمہ:اگر (فرض غسل کرنے والے کے)بدن کا کچھ حصہ رہ گیاکہ اسے پانی نہ پہنچا ،تو وہ جنابت سے نہیں نکلے گا،اگرچہ وہ حصہ بالکل تھوڑا ہو اور(کلّی نہ کرنے کی صورت میں) پانی پینا کلی کے قائم مقام ہو جائے گا،جبکہ پورے منہ میں پانی پہنچ جائے،ورنہ نہیں اور اگر بھول کر کلّی یا ناک میں پانی چڑھانا یا کسی بھی جگہ سے بدن کا کوئی حصہ چھوڑ دیا اور  نماز پڑھ لی،پھر یاد آیا،تو کلی کرے،ناک میں پانی چڑھائے اوراس حصہ کو دھو لے اور نماز دوبارہ پڑھے،جبکہ وہ فرض نماز ہو،کیونکہ وہ درست ہی نہ ہوئی اور اگر نفل نماز ہو،تو دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں،کہ اس کی ابتدا ہی درست نہ ہوئی۔(منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی،ص50،مطبوعہ کوئٹہ)

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’اگر بکر جنب تھا یعنی اس پر غسل فرض تھا اور کلی کرنا بھول گیا،تو طاہر نہ ہوا،کہ غسل کا ایک فرض اسکے ذمہ باقی رہ گیا۔پھر اگر غسل کے بعد وضوئے جدید کیا،جیسا کہ اکثر لوگ کر لیتے ہیں اور اس وضو میں کلی  کر لی،تو پاک ہو گیا،تمام نمازیں ہو گئیں اور اگر کلی نہ کی، تو اب بھی ناپاک ہی ہے، جب تک کلی نہ کریگا، پاک نہ ہو گا اور جب کلی کر لیگا، جنابت دور ہو جائیگی۔پھر اگر زید نے پانچوں نمازیں بغیر وضو کئے ہوئے اور بغیر کلی کے ادا کی ہیں، جیسا کہ سوال سے یہی ظاہر ہے، تو کوئی نماز ادا نہ ہوئی۔ اگر اور نمازیں ظہر سے عشاء تک کلی کے بعد پڑھی ہیں اور یہی عادۃً ظاہر ہے،کیونکہ ظہر وغیرہ کے وقت تو نیا وضو کیا ہی ہو گا، اگرچہ ممکن ہے کہ صبح کا وضو عشاء تک باقی رہے، مگر عادۃً دشوار ضرور ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وضو میں کلی کی ہو گی، اگرچہ وضو میں کلی فرض نہیں،مگر سنت تو ہے۔بہر حال اگر کلی ہو گئی، غسل ہو گیا، نمازیں اسکی بعد کی ادا ہو گئیں، پھر سے جدید غسل کی حاجت نہیں،نہ کلی میں قصداً ازالہ جنابت کی ضرورت، کہ غسل و وضو میں نیت شرط نہیں،بلکہ اگر بڑے بڑے گھونٹ سے پانی پی لیا کہ منھ کے تمام حصوں پر پانی گزر گیا،جب بھی جنابت دور ہو گئی۔‘‘(فتاوی امجدیہ،ج1،ص11،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،آرام باغ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم