Kire Makore Pani Ki Tanki Mein Gir Jayen Tu Pani Ka Hukum ?

کیڑے مکوڑے پانی کی ٹینکی میں گر جائیں تو پانی کا حکم

مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2760

تاریخ اجراء: 23ذیقعدۃالحرام1445 ھ/01جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک چیونٹی ہوتی ہے اور اسی طرح اس سے تھوڑا سا سائز میں بڑا ایک insect ہوتا  ہے، جسے ہم اپنی زبان میں مکوڑا کہتے ہیں،اگر یہ پانی کی ٹینکی میں گر جائے تو کیا اس  ٹینکی کے پانی سے غسل اور وضو ہو جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین شریعت کی روشنی کے مطابق  جن حشرات الارض میں بہتاخون نہیں ہوتا، اگر وہ پانی میں گر جائیں ،   تووہ پانی ناپاک نہیں ہوتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں  اگر مکوڑا پانی کی ٹینکی میں گر جائےتو  اس سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ،اس پانی سے وضو اور غسل  بھی کرسکتے ہیں اور اس پانی کو  پی بھی سکتے ہیں ،البتہ اگرپانی کی ٹینکی میں مکوڑا  گر کر مر جائے اور اُسی میں پڑا رہنے کے سبب اُس کے اجزاء بکھرجائیں ، تو اس سے وضو و غسل  تومطلقاہو سکتا ہے،لیکن جس پانی میں اس کے اجزاء شامل ہوں ،اس کاپیناجائزنہیں کیونکہ حشرات الارض کاکھاناجائزنہیں ۔

   بدائع الصنائع میں ہے” ان مات فی الماء اوفی غیرالماء ،فان لم یکن لہ دم سائل ، ﻛﺎﻟﺬباب والزنبور والعقرب والسمک والجراد ونحوھا ﻻ ﻳﻨﺠﺲ بالموتیعنی خواہ وہ پانی میں مرے یا غیرِ پانی میں ،اگر اس میں بہتا خون نہیں جیسے:مکھی ، بِھڑ ،بچھو، مچھلی  اور ٹڈی وغیرہ ، تو پانی ان کے مرنے سے ناپاک نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 79،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   رد المحتار میں ہے”في التتارخانية: دود لحم وقع في مرقة لا ينجس ولا تؤكل المرقة إن تفسخ الدود فيها اهـ أي: لأنه ميتة وإن كان طاهرا. قلت: وبه يعلم حكم الدود في الفواكه والثمار“ترجمہ:تتارخانیہ میں ہے کہ گوشت کا کیڑا اگر شوربے میں گرجائے تو وہ نجس نہیں ہوگا،البتہ اگر وہ کیڑا اس میں پھٹ گیا ہوتو اس شوربے یا سالن کو نہیں کھا سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کیڑا پاک ہونے کے باوجودمردار ہے (اور مردار کھانا جائز نہیں)علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اسی سے خشک اور تر پھلوں میں پائے جانے والے کیڑے کا بھی حکم معلوم ہوگیا ۔(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 620، مطبوعہ کوئٹہ)

   درمختار میں ہے”فلو تفتت فيه نحو ضفدع جاز الوضوء به لا شربه لحرمة لحمه“یعنی اگرمینڈک کے اجزاء پانی میں بکھر جائیں، تب بھی اس پانی سے وضو جائز ہے لیکن اس کا گوشت حرام ہونے کی وجہ سے اس پانی کو پینا جائز نہیں ۔

    (لحرمة لحمه) کے تحت رد المحتار  میں ہے”لأنه قد صارت أجزاؤه في الماء فيكره الشرب تحريما كما في البحر “ترجمہ: کیونکہ اس کے اجزاء پانی میں گھل چکے ہیں، لہذا اس پانی کا پینا مکروہِ تحریمی ہے، جیسا کہ بحر میں مذکور ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 367، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم