Kya Gali Dene Se Wazu Toot Jata Hai?

کیا گالی دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13093

تاریخ اجراء:21ربیع الثانی1445ھ/06نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ کسی مسلمان کو گالی دینا کیسا؟ اور اگر کوئی شخص وضو کی حالت میں گالی دے تو کیا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گالی دینا جائز نہیں ہے، گالی کے الفاظ مختلف طرح کے ہوتے ہیں ، گالی دینے میں ادنی  برائی یہ ہے کہ اس سے سامنے والے شخص کی دل آزاری ہوتی ہے اور یہ بات تکریمِ مسلم کے خلاف ہے۔  اور بلا عذر شرعی کسی بھی مسلمان کی دل آزاری کرنا،  جائز نہیں ۔  پھر اگر گالی معاذ اللہ فحش جملوں پر مبنی ہے تو گالی دینے کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہےاور فحش  جملوں میں ایک دو نہیں بہت ساری شرعی خرابیاں ہوتی ہیں ۔

   البتہ وضو کی حالت میں گالی دینے کی صورت میں حکمِ شرع یہ ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، مگر وضو کرلینا مستحب ہے۔

   برے نام سے پکارنے کی مذمت پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:” وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-“ترجمہ کنز الایمان: ” اور  ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو  ۔ کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا۔“(القرآن الکریم: پارہ26،سورۃ الحجرات،آیت 11)

   مفسرِ قرآن ابو عبد اللہ محمد بن عمر الرازی رحمۃ اللہ علیہ "تفسیرِ رازی" میں ایک مقام پر نقل فرماتے ہیں:{وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ}[الحجرات : 7]۔وذهب بعضهم إلى أن المراد منه بعض الأنواع ثم ذكروا وجوهاً: الأول : المراد منه السباب واحتجوا عليه بالقرآن والخبر ، أما القرآن فقوله تعالى :{وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-}[الحجرات : 11]وأما الخبر فقوله عليه الصلاة والسلام : « سباب المسلم فسوق وقتاله كفر » “ ترجمہ: ”{وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ}[الحجرات : 7]۔یعنی (اورکفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی)۔بعض مفسرین کرام علیہم الرحمہ کے نزدیک اس آیتِ مبارک میں فسق سے مراد مخصوص قسم کے گناہ ہیں۔ پھر مفسرین نے کچھ گناہوں کو ذکر فرمایا ہے، ان میں سے پہلا  یہ ہے کہ اس آیتِ مبارک میں فسق سے مراد گالی دینا ہے۔ اپنی اس بات پر مفسرین نے قرآن و حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ قرآن پاک سے اس طرح دلیل پکڑی کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے{ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-}[الحجرات : 11] اور حدیثِ پاک سے اس طرح دلیل پکڑی کہ فرمانِ مصطفیٰ ہے  " سباب المسلم فسوق وقتاله كفر " یعنی مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے (حلال سمجھ کر)قتل کرنا کفر ہے۔ (التفسير الكبير،  ج 05، ص 317،  دار إحياء التراث العربی، بیروت)

   مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:”أن النبي صلى الله عليه و سلم قال: "سباب المسلم فسوق"۔“یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےارشاد  فرمایا :مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔ (صحيح البخاري ، کتاب الایمان، ج01، ص19،دار  طوق النجاۃ)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دیناحرام قطعی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:"سباب المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم"۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 21، ص 128-127، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

    ایک دوسرے مقام پر فتاوٰی رضویہ میں مذکور ہے: کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی ایذادینا حرام ہے اور گالی دینا سخت حرام ہے اور بعض گالیاں تو کسی وقت حلال نہیں ہوسکتی اور ان کا دینے والا سخت فاسق اور سلطنت اسلامیہ میں اسی (80)کوڑوں کا مستحق ہو تا ہے ، ان سے ہلکی گالی بھی بلاوجہ شرعی حرام ہے۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 538، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت میں ہے:”جھوٹ، چغلی، غیبت، گالی دینا، بیہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں۔“ (بہار شریعت،ج01،ص996، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   گالی دینے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ مراقی الفلاح   میں ہے:”( و ) بعد ( كل خطيئة وإنشاد شعر ) قبيح لأن الوضوء يكفر الذنوب الصغائر ۔“ یعنی ہر گناہ کے بعد اور برے اشعار گانے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے کیونکہ وضو گناہِ صغیرہ کو مٹاتا ہے۔ (مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح ، کتاب الطھارۃ، ص37، المكتبة العصرية)

   درِ مختار  میں ہے:”و  مندوب فی نیف وثلثین موضعا ذکرتھا فی "الخزائن" :  منھا بعد کذب وغیبۃ وقہقہۃ و شعر واکل جزور وبعد کل خطیئۃ، وللخروج من خلاف العلماء۔“یعنی تیس30سے زیادہ مقامات  پر دوبارہ وضو کرنا  مستحب ہے، ان سب کا ذکر میں نے "خزائن" میں کیا ہے۔ اُن میں سے چند یہ ہیں : جھُوٹ، غیبت، قہقہہ، شعر ، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد اور ہر گناہ کے بعد اور اختلافِ علماء سے نکلنے کے لیے (وضو کرنا مستحب ہے)۔ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، ج01،ص207-206،مطبوعہ کوئٹہ )

   درِ مختار کی مذکورہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد فتاوٰی  رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:اقول والحقت النمیمۃ لانھا کالغیبۃ اواشد ثم رأیتھا فی میزان الامام الشعرانی وغیرہ والحقت الفحش لانہ اخنأمن الشعر وربما یدخل فی قولہ خطیئۃ والشتم لانہ اخبث واخنع ثم رأیت التصریح بہ فی انوار الشافعیۃ۔"اقول میں نے چغلی کو بھی شامل کیا اس لئے کہ وہ غیبت ہی کی طرح ہے یا اس سے بھی سخت، پھر میں نے میزان امام شعرانی وغیرہ میں اس کا ذکر دیکھا اور فحش کو میں نے شامل کیا اس لئے کہ وہ شعر سے زیادہ برا ہے اور یہ در مختار کے لفظ ہر گناہ کے تحت آسکتا ہے ۔ اور گالی دینے کواس لئے کہ یہ اور بد تر اور فحش تر ہے پھر انوار شافعیہ میں میں نے اس کی تصریح دیکھی۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 01(ب)، ص 969، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

    ایک دوسرے مقام پر فتاوٰی رضویہ میں ہے:وضو دو قسم ہے: واجب ومندوب۔۔۔۔ مندوب کے اسباب کثیر ہیں ازانجملہ:(1) قہقہہ سے ہنسنا        (2) غیبت کرنا(3) چغلی کھانا        (4) کسی کو گالی دینا(5) کوئی فحش لفظ زبان سے نکالنا    (6) جھوٹی بات صادر ہونا ۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 01(ب)،  ص 963، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   بہار شریعت میں ہے:”بعد ستر غلیظ چھونے اور جھوٹ بولنے ، گالی دینے، فحش لفظ نکالنے۔۔۔۔غیبت کرنے، قہقہہ لگانے، لغو اشعار پڑھنے ۔۔۔ ان سب صورتوں میں وُضو مستحب ہے۔(بہار شریعت،ج01،ص302، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم