Kya Sakht Sardi Ki Wajah Se Wazu Ghusal Ki Jagah Tayammum Kar Sakte Hain?

کیا سخت سردی کی وجہ سے وضو و غسل کی جگہ تیمم کر سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6874

تاریخ اجراء:23جمادی الاولی1443ھ/28دسمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل سردی کا موسم ہے۔بعض علاقوں میں سردی کی شدت  کے ساتھ برف باری بھی ہو رہی ہے،ہماراعلاقہ بھی کئی ماہ تک مسلسل شدید سردی اور برف باری کی لپیٹ میں رہتا ہے اور ٹمپریچر بھی مائنس میں چلا جاتا ہے،بسا اوقات نماز کے لئے وضو یافرض غسل کرنے میں کافی آزمائش ہوجاتی ہے،کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے اور اسے گرم کرنے کا  کوئی بندوبست بھی نہیں ہوپاتا،تو ایسی صورت میں تیمم کی اجازت ہے یا نہیں؟ہمارے ہاں کچھ لوگوں کاذہن بن چکا ہے اور مزید کا بھی بنتا جارہا ہے کہ سردی کی شدت میں تیمم کی اجازت ہونی چاہیے۔میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اگر سخت سردی ہو،تو کس کیفیت میں تیمم کی اجازت ہے اور کس میں نہیں؟نیز اگر کوئی شخص سردی کی شدت کی وجہ سے تیمم کر لے،تو  وہ دوسروں کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت کا اجمالی جواب یہ ہے کہ فقط سردی یا پانی کا ٹھنڈا ہونا تیمم کرنے کے لئے ہر گز ہر گز عذر نہیں،جس طرح عام دنوں میں نماز کے لئے وضو یا فرض غسل کرنا شرط ہے،یونہی سردی کے موسم میں بھی شرط ہے،وضو و غسل پر قدرت ہونے کے باوجود ،بلا اجازتِ شرعی تیمم کر کے نماز پڑھیں گے،تو سخت گنہگار اور عذابِ نار کے حق دار ہوں گے اور وہ نماز بھی ادا نہیں ہوگی،بلکہ اسی طرح ذمہ پر باقی رہے گی،جسے وضو یا غسل کر کے دوبارہ پڑھنا فرض ہوگا، البتہ اگر پانی کے استعمال سے جان جانے یاکوئی عضو ہلاک ہونے یا بیمار ہونے یا بیماری بڑھنے یا پہلے سے بیمار آدمی کے دیر سے اچھا ہونے کا حقیقی خطرہ موجود ہو،تو اس صورت میں تیمم کرنے کی اجازت ہو گی اور تیمم کر کے امامت بھی کر سکتے ہیں۔

   اس مسئلہ کی مکمل تفصیل کچھ یوں ہےکہ نماز تمام فرائض میں سے  اہم و اعظم فرض ہے،اس کی ادائیگی کے لئے  طہارت/پاکی  شرط ہے، یعنی بے وضو شخص کا کم از کم وضو اور جس پر غسل فرض ہے، اس کا غسل کر کے نماز پڑھنا فرض  ہے  اور جب تک کسی بھی طرح سے وضو و غسل کرنا،شریعت کی نظر میں لازم  ہو،تب تک  نماز کی ادائیگی کے لئے ان کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں،حتی کہ اگر ٹھنڈا پانی نقصان دے اور گرم نہ دے، تو گرم پانی کےساتھ وضو و غسل کرنا فرض ہے،اگر گرم پانی کی کوئی صورت نہ ہو،مگر ایسا کپڑا یا لحاف موجود ہے،کہ ٹھنڈے پانی سے وضو و غسل کے بعد گرم کپڑے پہن یا  اوڑھ کر یا آگ ہے،جسے تاپ کر اپنے آپ کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے،تب بھی تیمم کی اجازت نہیں ۔یونہی کسی عضو پر پانی ڈالنے کی وجہ سے ضَرَر ہوتاہواور بقیہ اعضاء دھو سکتے  ہوں،تو اس عضو پر مسح کرنا اوربقیہ اعضاء پر پانی بہانا فرض ہے۔الغرض کسی بھی طریقے سے وضو و غسل پر قادر ہونے کی صورت میں نماز کے لئے وضو و غسل کرنا ہی ضروری ہے۔

   آج کل دیکھا جائے ،توعموماًگھروں میں گیزر،راڈیا کم از کم چولہا ضرور موجودہوتا ہے،جس سے بآسانی پانی گرم کر سکتے ہیں،نیز موٹے بستر، لحاف ،ہیٹرز یا  آگ بھی  موجود ہوتی ہے،نہانے کے بعد جس سے اپنے آپ کو سردی سے بچایا جا سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انتہائی سرد علاقوں  میں بھی رہنے والے  کثیر افراد جو نماز کی اہمیت  جانتے  ہیں،وہ نماز کے لئے وضو یا غسل ہی کا اہتمام کرتے ہیں،کیونکہ انہوں نے اس کے لئے پہلے سے بندو بست کیا ہوتا ہے، لہٰذا بقیہ  افراد پر بھی لازم ہے کہ وہ وضو و غسل کے لیے مناسب بندوبست کر کے رکھیں ،تاکہ نماز جیسی اہم و اعظم عبادت کہیں ضائع نہ ہو ۔

   بلکہ مسلمانوں کو تو چاہیے کہ وہ زیادہ ثواب کی امید پر سردی  میں بھی خوش دلی کے ساتھ  وضو و غسل کر کے نماز ادا کریں،اگرچہ اس کے لئے انہیں کچھ زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑے،کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سردی وغیرہ کی مشقت برداشت کر کے وضو کرنا گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث  ہے اور جس نے سخت سردی میں اچھے طریقے سے وضو کیا،اسے دُگنا ثواب ملے گا،ایک وضو کرنے کا اور دوسرا سردی کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنے کا۔

   اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعتِ مطہرہ میں پاکی حاصل کرنے کی ایک صورت تیمم کی بھی ہے،لیکن  اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معمولی مشقت یامحض اپنی سہولت کے پیشِ نظر وضو وغسل جیسے فرض کو چھوڑ کرتیمم کر لیاجائے،کیونکہ تیمم جائز ہونے کی خاص شرائط ہیں،اگر وہ پائی جائیں،تب ہی تیمم کر سکتے ہیں،ورنہ  تیمم کر کے نما زپڑھنا جائز نہیں، پڑھیں گے، تو گنہگار ہوں گے اور فرض بھی ذمے پر باقی رہے گا، پس جب اس صورت میں اپنی نماز ہی درست نہیں، تو دوسروں کی اس کے پیچھے کیسے درست ہو سکتی ہے؟

   البتہ سخت سردی کی ایک ممکنہ صورت میں شریعتِ مطہرہ نے غسل کے بجائے تیمم کرنے کی اجازت دی ہے اور وہ یہ کہ سردی بہت سخت ہو اورگرم پانی سے غسل کرنے کی کوئی صورت نہ ہواور نہ ہی کوئی ایسا کپڑا،لحاف یا آگ وغیرہ میسر ہو کہ جس کے ذریعہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکیں اور اس سردی میں  نہانے کی وجہ سے جان جانے یابیمار ہونےیابیماری بڑھنے یا دیر سے اچھا ہونے کا حقیقی خطرہ موجود ہو،تو اس خاص صورت میں قرآنِ کریم کی آیات،احادیثِ طیبہ،فقہی قواعد اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق غسل کے بجائے تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ان شرائط کی موجودگی میں تیمم کرکے پڑھی گئی نماز بلاشبہ درست ہےاوربعد میں اس کا اعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا بھی ضروری نہیں،نیز ایسا شخص اگر امامت کرتا ہے، تواس کے پیچھے تیمم اور وضو کرنے والے سب افراد کی نماز درست ہوگی،جبکہ وہ اپنی شرائط کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔

   لیکن یاد رہے کہ مذکورہ رخصت بالخصوص فرض غسل کے لئے ہے،کیونکہ وضو کے مقابلے میں غسل  میں زیادہ مشقت ہوتی ہے،کہ غسل میں پورے جسم پر پانی بہانا ہوتا ہے اور وضو میں فقط چند اعضاء پر اور چند اعضاء پر پانی بہانے کی بنسبت پورے جسم پر پانی بہانا زیادہ مشکل ہوتا ہے،یہی وجہ ہےکہ  کئی فقہاء نے سخت / شدید سردی کےباوجود وضو کی جگہ تیمم کرنے کی اجازت نہیں دی،لیکن بہر حال اگر وضو میں بھی غسل جیسا حقیقی عذر موجود ہو،تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق وضو کا حکم بھی غسل جیسا ہی ہوگا،یعنی اس کی جگہ پر بھی تیمم کرنے کی اجازت ہوگی  اور بعض برفانی علاقوں میں یہ ضرورت موجود ہوسکتی ہے کہ بعض جگہوں پر گرم پانی دستیاب نہیں ہوتا اور ٹھنڈا پانی اس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اس کی ٹھنڈک برداشت کرنا نہایت تکلیف دہ بلکہ بعض اوقات اعضاء کو شَل کردیتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ جوانوں کے مقابلے میں بوڑھوں کےلئے اور مَردوں کے مقابلے میں عورتوں کےلئے اور طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کےلئے رخصت کی صورت جلد نکل آئے گی۔

   نوٹ:لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے طور پر جائز و ناجائز کے فیصلے نہ کریں،بلکہ علمِ دین حاصل کریں اور ماہر علماء و مفتیانِ کرام سے رہنمائی بھی لیتے رہیں ۔

   سخت سردی میں وضو کرنے سے متعلق احادیث:

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الا ادلكم على ما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات؟قالوا: بلى يا رسول الله! قال:اسباغ الوضوء على المكاره وكثرة الخطا الى المساجد وانتظار الصلاة بعد الصلاة،فذلكم الرباط‘‘ترجمہ:کیا میں تمہاری ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں کہ جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند فرماتا ہے؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض  کی:کیوں نہیں ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!فرمایا:(سردی وغیرہ کی)مشقت برداشت کر کے اچھے طریقے سے وضو کرنا،مساجد کی طرف زیادہ قدم چلنا اورایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔پس یہ اعمال تمہارے لئے(نفس و شیطان سے )حفاظت کا ذریعہ ہیں۔(الصحیح لمسلم،کتاب الطھارۃ،باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ،ج1،ص127،مطبوعہ کراچی)

   حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من اسبغ الوضوء في البرد الشديد،كان له من الاجر كفلان‘‘جس نے سخت سردی میں اچھے طریقے سے وضو کیا ،اس کے لئے ثواب کے دو حصے ہیں۔(المعجم الاوسط،ج5،ص298،مطبوعہ قاھرہ)

   شدید سردی میں پیش آنے والی مخصوص صورت میں  تیمم جائز ہونے کے دلائل:

   قرآن پاک کی آیت:اللہ پاک وضو و غسل کا حکم بیان کرنے کے بعد تیمم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرْضٰۤی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمْ وَاَیۡدِیۡکُمۡ مِّنْہُ ؕمَایُرِیۡدُ اللہُ لِیَجْعَلَ عَلَیۡکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیۡکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَترجمہ:اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو اور ان صورتوں میں پانی (کے استعمال پر قدرت )نہ پاؤ،تو پاک مٹی سے تیمم کر لو ،تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس سے مسح کر لو۔اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے،لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب پاک کر دے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دے،تا کہ تم شکر ادا کرو۔(پ6،س المائدہ،آیت 6)

   حدیث ِ پاک:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل، فاشفقت ان اغتسلت ان اهلك فتيممت، ثم صليت باصحابي الصبح،فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم،فقال: يا عمرو!صليت باصحابك وانت جنب؟فاخبرته بالذی منعني من الاغتسال وقلت اني سمعت الله، يقول:﴿ ولا تقتلوا انفسكم ان الله كان بكم رحيما﴾فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقل شيئا ‘‘ترجمہ:غزوہ ذات السلاسل  میں ایک ٹھنڈی رات مجھے احتلام ہو گیا،مجھے خوف لاحق ہوا کہ اگر غسل کروں گا،تو ہلاک ہو جاؤں گا، پس میں نے تیمم کر لیا،پھر اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔انہوں نے سارا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا،تو آپ نے ارشاد فرمایا:اے عمرو!تم نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھا دی ہے ،حالانکہ تم جُنبی تھے؟پس  جس چیز نے مجھےغسل کرنے سے روکا ،میں نے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے عرض کر دی  اور کہا:میں نے اللہ پاک کا فرمان سن رکھا ہے،وہ فرماتا ہے:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو،بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مسکرائے اور مزید کچھ نہ فرمایا۔ (سننِ ابی داؤد،کتاب الطھارۃ،باب اذا خاف الجنب البرد ایتیمم،ج1،ص60،مطبوعہ لاھور)

   اس حدیثِ پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:’’وبه علم عدم اعادة الصلاة التی صلاها بالتيمم فی هذه الحالة وهو حجة على من يامره بالاعادة ودل ايضا على جواز التيمم لمن يتوقع من استعمال الماء الهلاك، سواء كان للبرد او لغيره، وسواء كان فی السفر او فی الحضر ‘‘ترجمہ:اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ اس حالت میں تیمم کے ساتھ جو نماز پڑھی،اسے دوبارہ پڑھنا لازم نہیں اور یہ اس کے خلاف دلیل ہے،جو ایسی نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتا ہےاور اس حدیث میں اس شخص کے لئے تیمم جائز ہونے کی دلیل ہے،جسے پانی کے استعمال کی وجہ سے ہلاکت کا خوف ہو،اب برابر ہے کہ یہ خوف سردی کی وجہ سے ہویا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سےاور برابر ہے کہ بندہ سفر میں ہو یا مقیم(بہر صورت تیمم کی اجازت ہوگی)۔ (عمدۃ القاری،ج4،ص34،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   فقہی قاعدہ:(1) شریعت کا قاعدہ ہے کہ جہاں ایسی مشقت پائی جائے ،جسے شریعت مشقت تسلیم کرتی ہو،تو اس کی وجہ سے بندے کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے اور اتنی سخت سردی کہ جس میں جسم پر پانی بہانے کی وجہ سے بندے کی جان جانے یا کوئی عضو ضائع ہونے وغیرہ کا حقیقی خطرہ موجود ہو،تو یقیناًشریعتِ مطہرہ اسے بھی  مشقت تسلیم کرتی ہے،لہذا اس کی وجہ سے بھی تیمم والی رخصت و آسانی ملے گی۔

   الاشباہ والنظائر میں ہے:’’ القاعدة الرابعة:(المشقة تجلب التيسير)والاصل فيها قوله تعالى:﴿ يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر﴾وقوله تعالى:﴿وما جعل عليكم في الدين من حرج﴾وفی حديث:احب الدين الى الله تعالى الحنيفية السمحة‘‘ قال العلماء: يتخرج على هذه القاعدة جميع رخص الشرع وتخفيفاته، واعلم ان اسباب التخفيف فی العبادات وغيرها سبعة: ۔۔الثانی:المرض، ورخصه كثيرة: التيمم عند الخوف على نفسه او على عضوه او من زيادة المرض او بطئه ‘‘ترجمہ:چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ مشقت آسانی لاتی ہے،اس کی اصل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا‘‘اورمزید  یہ فرمان ہے’’ اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘اور حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک کے ہاں پسندیدہ دین،دینِ اسلام ہے ،جو نرمی و سہولت والا ہے۔علماء نے فرمایا:اس قاعدے کی بنیاد پر تمام شرعی رخصتیں اور تخفیفات نکلتی ہیں اور جان لو کہ عبادات وغیرہ میں اسبابِ تخفیف سات ہیں۔اسبابِ تخفیف میں سے دوسرا سبب مرض ہے اور اس کی بہت سی رخصتیں ہیں۔(ان میں سے ایک)اپنی جان یا عضوکے ہلاک ہونے یا مرض بڑھنے یا دیر سےاچھا ہونے کے خوف سے تیمم کرنا ہے۔ (الاشباہ والنظائر،ج1،ص245تا246،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   فقہاء کی تصریحات:سردی کی شدت میں غسل کی جگہ تیمم کرنے کے بارے میں تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’من عجز ۔۔عن استعمال الماء۔۔لبعدہ ۔۔میلا۔۔او لمرض۔۔او برد یھلک الجنب او یمرضہ ولو فی المصر اذا لم تکن لہ اجرۃ حمام ولا ما یدفئہ۔۔تیمم‘‘ترجمہ:جو شخص پانی کے ایک میل دورہونے یااپنے مرض یا ایسی  سردی کی وجہ سے اس کے استعمال سے عاجز ہو،جو جنبی کو ہلاک یا بیمار کر دے گی،اگرچہ وہ شہر میں ہو،جبکہ اس کے پاس حمام کی اجرت نہ ہو اور نہ ایسی کوئی چیز ہو جس سے سردی کو دور کر سکے،توایسا شخص تیمم کر لے۔ (تنویر الابصار مع در مختار،ج1،ص232تا236،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   ’’یھلک الجنب‘‘کے تحت فتاوی شامی میں جنبی کے ساتھ بے وضو شخص کے لئے بھی تیمم کا جواز یوں بیان کیا گیا ہے:’’قيد بالجنب،لان المحدث لا يجوز له التيمم للبرد فی الصحيح،خلافا لبعض المشايخ،كما فی الخانية والخلاصة وغيرهما وفی المصفى:انه بالاجماع على الاصح، قال فی الفتح وكانه لعدم تحقيق ذلك فی الوضوء عادة۔۔اقول:۔۔نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر فی الوضوء عادة انه لو تحقق جاز فيه ايضا اتفاقا ‘‘ترجمہ:مصنف علیہ الرحمۃ نے جنبی ہونے کی قید لگائی،کیونکہ صحیح قول کے مطابق بے وضو شخص کے لئے سردی کی وجہ سے تیمم کرنا ، جائز نہیں،بعض مشائخ کا اس میں اختلاف ہے،جیسا کہ خانیہ اور خلاصہ وغیرہ میں ہے۔اور مصفی میں ہے:اصح قول کے مطابق بالاجماع وضو کےلئے تیمم کی اجازت نہیں۔فتح القدیر میں فرمایا:کیونکہ وضو میں عادۃً ہلاکت والی صورت متحقق نہیں ہوتی۔علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:وضو میں عادۃً نقصان متحقق نہ ہونے کے ساتھ علت بیان کرنے کا مفاد یہ ہے کہ اگر وضو میں نقصان متحقق ہو، تو اس کے لئے بھی بالاتفاق تیمم کرنا ، جائز ہے۔ (فتاوی شامی،ج1،ص234،مطبوعہ،دار الفکر،بیروت)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سردی کی وجہ سے جنبی اور بے وضو شخص کے لئے تیمم کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’سردی شدید ہے اور حمام نہیں یا اُجرت دینے کو نہیں، نہ پانی گرم کرسکتا ہے، نہ ایسے کپڑے  ہیں کہ نہا کر اُن سے گرمی حاصل کرسکے، نہ تاپنے کو الاؤمل سکتا ہے اور اس سردی میں نہانے سے مرض کا صحیح خوف ہے، تو تیمم کرسکتا ہے، اگرچہ شہر میں ہو’’درمختار‘‘سردی کے باعث وضو نہیں چھوڑ سکتا’’وھو الصحیح،کما فی الخانیہ والخلاصۃ،بل ھو بالاجماع، مصفی‘‘ترجمہ:یہی صحیح ہے،جیسا کہ خانیہ اور خلاصہ میں ہے،بلکہ یہ بالاجماع ہے۔ ہاں! اگر اُس سردی میں وضو سے بھی صحیح خوفِ حدوثِ مرض ہو، جب بھی تیمم کرے،خالی وہم کا اعتبار نہانے میں بھی نہیں، وضو تو وضو۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج3،ص415،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید ایک مقام پر شرعی اجازت ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھانے والے شخص کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ جب تک نہانے سے مضرت نہ ہو، بے صحیح اندیشہِ مضرت کے تیمم سے پڑھے، تواس(امام) کی خود نماز نہ ہوگی، دوسرے کی اُس کے پیچھے کیا ہو؟ہاں جسے بالفعل ایسا مرض موجود ہو، جس میں نہانا نقصان دے گا یا نہانے میں کسی مرض کے پیدا ہوجانے کا خوف ہے اوریہ نقصان وخوف  اپنے تجربے سے معلوم ہوں یا طبیب حاذق مسلمان غیرفاسق کے بتائے سے، تو اُس وقت اُسے تیمم سے نماز جائز ہوگی اور اب اس کے پیچھے سب مقتدیوں کی نماز صحیح ہے، غرض امام کا تیمم اور مقتدیوں کا پانی سے طہارت سے ہونا صحتِ  امامت میں خلل انداز نہیں، ہاں امام نے تیمم ہی بے اجازت شرع کیا ہو،تو آپ ہی نہ اس کی ہوگی، نہ اُس کے پیچھے اوروں کی ۔تنویر میں ہے:’’صح اقتداء متوضئ بمتیمم‘‘ترجمہ:تیمم کرنے والے کے پیچھے وضو کرنے والے کی اقتداء کرنا صحیح ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج6،ص638،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم