Kya Shak Ki Wajah Se Wuzu Toot Jata Hai ?

نماز کے لیے کھڑے ہونے پر ایسا لگے کہ وضو باقی نہیں رہا، تو کیا تازہ وضو کرنا ضروری ہوگا؟

مجیب:  ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12261

تاریخ اجراء:     28ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/28جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ  اچھی طرح وضو کرنے کے بعد بھی جب نماز کے لیے کھڑی ہوتی ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کا وضو باقی نہیں رہا جب  کہ اسے وضو ٹوٹنے کا یقین بھی نہیں ہوتا۔ اب بار بار وضو کرنے میں اسے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بسا اوقات تو اس کا دل بھی گھبرانے لگ جاتا ہے۔

   دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس صورت میں ہندہ کے لیے نئے سرے سے وضو کرنا شرعاً ضروری ہے؟ یا پھر وہ اسی وضو کے ساتھ اپنی نماز جاری رکھے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا، جب تک وضو ٹوٹنے کا اس حد تک یقین نہ ہوجائے کہ بندہ قسم کھاسکے تب تک اس کا وضو باقی رہتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں وضو باقی نہ رہنے کے محض وسوسے آنے سے ہندہ کا وضو نہیں ٹوٹے گا ہندہ کو چاہیے کہ  اگر اس کا معاملہ واقعی وسوسوں کی حد تک ہے تو ان کی طرف اصلاً توجہ نہ دے اور اپنی نماز جاری رکھے۔

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”ولو ایقن بالطھارۃ وشک بالحدث او بالعکس اخذ بالیقین“یعنی اگر طہارت کا یقین ہو اور حدث میں شک واقع ہوجائے یا پھر اس کا برعکس ہو تو اس صورت میں جس کا یقین ہو اسے لیا جائے گا۔

مذکورہ بالا عبارت کے تحت  ردالمحتار میں ہے :”حاصلہ انہ اذا علم سبق الطھارۃ وشک فی عروض الحدث بعدھا او بالعکس اخذ بالیقین وھو السابق“ترجمہ:  ”اس کا حاصل یہ ہے کہ جب سابقہ طہارت کا علم ہو لیکن طہارت کے بعد حدث واقع ہونے میں شک پیدا ہوجائے یا پھر اس کا برعکس ہو، تو اس صورت میں جس کا یقین ہے اور وہ سابق ہے اسے لیا جائے گا ۔(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلوۃ ، ج01، ص310، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’شیطان نماز میں دھوکہ دینے کے لئے کبھی انسان کی شرمگاہ پر آگے سے تھوک دیتا ہے کہ اسے قطرہ آنے کا گمان ہوتا ہے کبھی پیچھے پھونکتا یا بال کھینچتا ہے کہ ریح ہونے کاخیال گزرتا ہے اس پر حکم ہوا کہ نماز سے نہ پھرو جب تک تری یا آواز یا بُو نہ پاؤ جب تک وقوعِ حدث پر یقین نہ ہولے۔۔۔یعنی یقین ایسا درکار ہے جس پر قسم کھا سکے کہ ضرور حدث ہوا اور جب قسم کھاتے ہچکچائے تو معلوم ہوا کہ معلوم نہیں مشکوک ہے اور شک کا اعتبار نہیں کہ طہارت کا یقین تھا اور یقین شک سے نہیں جاتا۔)فتاوٰی رضویہ،ج01،ص775،رضافاؤنڈیشن، لاہور(

   بہارِ شریعت میں ہے:”جو باوُضو تھا اب اسے شک ہے کہ وُضو ہے یا ٹوٹ گیا تو وُضو کرنے کی اسے ضرورت نہیں۔  ہاں کر لینا بہتر ہے جب کہ یہ شُبہہ بطورِ وسوسہ نہ ہوا کرتا ہو اور اگر وسوسہ ہے تو اسے ہرگز نہ مانے ،اس صورت میں اِحْتِیاط سمجھ کر وُضو کرنا اِحْتِیاط نہیں بلکہ شیطانِ لعین کی اطاعت ہے۔“( بہار شریعت، ج 01، ص 311، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وسوسوں کا ایک علاج یہ بھی ہے کی ان کی طرف بالکل توجہ نہ کی جائے۔ جیساکہ بہارِ شریعت میں ہے:”وسوسہ کا بالکل خیال نہ کرنا بلکہ اس کا خلاف کرنا بھی دافعِ وسوسہ ہے۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 303، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نوٹ: وسوسے اور ان کے علاج کے بارے میں مزید معلومات کےلئے امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے  رسالہ”وسوسے اور ان کا علاج“کا مطالعہ فرمائیں۔ اس رسالے کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹwww.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم