Napak Carpet Par Gila Kapra Ya Paon Lagne Ka Hukum

ناپاک کارپیٹ پر گیلا کپڑا یا پاؤں لگنے کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2504

تاریخ اجراء: 16شعبان المعظم1445 ھ/27فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کارپیٹ  پر کوئی نجاست لگ جائے ،جسے  گیلے کپڑے سے صاف کرلیا جائے  اور وہ کارپیٹ خشک ہوجائے ،پھر اس  پر کوئی  گیلا  پاؤں  ،یا     گیلا  برتن رکھ دے، یا    کوئی    گیلا  کپڑا پہن کر اس پر بیٹھ جائے،تو   ایسی صورت میں  وہ پاؤں، برتن، اور کپڑا     ناپاک ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کارپیٹ پر نجاست  لگ جانے کی صورت میں اُسے شرعی طریقے   کار کے مطابق دھوکر  ہی پاک  کرنا   ہوگا، بغیر دھوئے صرف گیلے کپڑے سے نجاست  کو صاف کرلینے سے  وہ    کارپیٹ پاک نہیں ہوگا۔

   لہذا ایسے ناپاک     کارپیٹ     پر      اگر     کوئی       گیلا پاؤں یا   گیلا  برتن رکھ  دے  یا کوئی   گیلا  کپڑا پہن کر بیٹھ جائے تو  اُس پاؤں، برتن اور کپڑے کے پاک ہونے اور نہ ہونے سے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ:

   اگر گیلا   پاؤں یا  گیلا برتن  یا گیلے      کپڑے میں اتنی زیادہ تری  ہو کہ اُن سے تَری چھوٹ کر  کارپیٹ کے  ناپاک حصے پر لگے  اور اس ناپاک حصے کو تَر کرکے وہی  ناپاک تَری  واپس پاؤں،برتن ،کپڑے   پر    لگ جائے  ، تو اب وہ  گیلا پاؤں،برتن اور کپڑا    ناپاک ہوجائیں  گے۔

   ہاں البتہ  اگر پاؤں ،برتن اور کپڑے  میں   اتنی تَری    نہ ہوکہ ناپاک کارپیٹ کو تَر کرکے واپس وہ تری  اِن  کو  لگے، بلکہ کارپیٹ پر صرف دھبہ  او ر  نَمی   آئے، تو اب کارپیٹ کے ناپاک حصے پر لگنے کی وجہ سے وہ پاؤں، برتن  اور کپڑا             ناپاک نہیں ہوں گے۔

   کپڑے وغیرہ جیسی چیزوں  پر جب منی کے علاوہ نجاست لگ جائے تو   اُسے دھونا ہی ضروری ہوتا ہے،جیسا کہ بحر الرائق میں ہے:’’وفي البدائع ، وأما سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل سواء كانت رطبة أو يابسة وسواء كانت سائلة أو لها جرم “ترجمہ:بدائع میں ہے کہ تمام نجاستیں جب کپڑے یا بدن وغیرہ پر لگ  جائیں تو وہ ناپاکی دھونے سے ہی ختم ہو گی ، خواہ وہ نجاستیں تر ہوں یا خشک، وہ نجاستیں بہنے والی ہوں یا جرم دار  ۔(بحر الرائق،جلد1، کتاب الطھارۃ، باب الانجاس ،صفحہ 390،  دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   ہدايہ میں ہے:’’والثوب لا يجزي فيه إلا الغسل وإن يبس لأن الثوب لتخلخله يتداخله كثير من أجزاء النجاسة فلا يخرجها إلا الغسل‘‘ترجمہ:اور کپڑے   پر نجاست لگنے میں اسے دھونا ہی ضروری ہے، اگرچہ نجاست خشک ہو،کیونکہ  کپڑے کے  اجزاء کے باہم ملے نہ ہونے کی وجہ سے نجاست کے کثیر اجزاءکپڑے میں داخل ہوجاتے ہیں ،لہذا کپڑے میں لگی  نجاست صرف دھونے  سے ہی زائل ہوگی۔(هدایہ،جلد1،صفحہ36، دار احياء التراث العربي ، بيروت)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں  لکھتے ہیں: ”بھیگے ہوئے پاؤں نجس زمین یا بچھونے پر رکھے، تو ناپاک نہ ہوں گے، اگرچہ پاؤں کی تَری کا اس پر دھبہ محسوس ہو، ہاں اگر اس زمین یا بچھونے کو اتنی تَری پہنچی کہ اس کی تَری پاؤں کو لگی تو پاؤں نجس ہوجائیں گے۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ2، صفحہ 393، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم