Napak Zameen Khushk Ho gai, Phir Is se Lagne Wala Pani Pak Hoga Ya Napak ?

ناپاک زمین خشک ہوگئی ، پھر اس سے لگنے والا پانی پاک ہوگا یا ناپاک ؟

مجیب: مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2280

تاریخ اجراء: 28 ذو القعدۃ الحرام 1443  ھ/28جون  2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نجس زمین خشک ہوجائے ، تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے ، البتہ تیمم کے حق میں ناپاک ہے کہ اس سے تیمم نہیں ہوسکتا ۔ سوال یہ ہے کہ جب اس زمین کو تیمم کے لیے دھویا جائے گا ، تو اس زمین سے لگنے والے پانی کا کیا حکم ہوگا ؟ نماز والی صورت کا اعتبار کرتے ہوئے پاک تصور ہوگا یا تیمم والی صورت کا اعتبار کرتے ہوئے ناپاک شمار ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وہ پانی پاک ہی رہے گا ، ناپاک نہیں ہوگا ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ زمین کے ناپاک ہونے سے پہلے دو وَصْف تھے : (1) طاہِر ( یعنی زمین پاک تھی )۔ (2) مُطَہِّر ( یعنی پاک کرنے والی بھی تھی ) ۔ جب نجاست کی وجہ سے زمین ناپاک ہوئی ، تو اس کے یہ دونوں وصف زائل ہوگئے اور پھر جب دھوپ وغیرہ کی وجہ سے خشک ہوئی،  تو ان دو وَصْفوں میں سے ایک وَصْف لوٹ آیا اور وہ ہے طاہر ( یعنی زمین کا پاک ) ہونا ، دوسرا وصف مُطَہِّر ( یعنی پاک کرنے والا ) ہونا ، یہ نہیں لوٹا ۔ جس کی وجہ سے یہ زمین نماز کے قابِل تو ہوگئی  کہ نماز کے لیے جگہ کا پاک ہونا شَرْط ہے ، پاک کرنے والا ہونا شرط نہیں ،لیکن تیمم کے قابل نہیں ہوئی ، کیونکہ تیمم کے لیے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ پاک کرنے والی ہونا بھی ضروری ہے ۔

   اور پھر جب اس کو قابِلِ تیمم بنانے کے لیے دھویا گیا ، تو اس کے ساتھ پاک پانی لگنے کی وجہ سے اس کا یہ طہارت والا وصف زائل نہیں ہوگا،بلکہ دوسرا ( یعنی پاک کرنے والا ) وصف بھی حاصل ہوجائے گا ۔ جیسا کہ مائے مُسْتَعْمَل کہ  اس سے دُگنا مائے مُطْلَق شامل کر دیا جائے ، تو وہ مائے مستعمل جو پہلے پاک تھا اورجو اس میں پہلے وصف مُطَہِّر ( پاک کرنے والا ) نہیں تھا ، اب یہ وصف بھی آجائے  گا ،  اسی طرح یہاں بھی یہ زمین پہلے پاک تھی اور پھر جب اس کے ساتھ پاک پانی ملا ، تو نہ یہ زمین ناپاک ہوگی اور نہ ہی وہ پانی ناپاک ہوگا ، بلکہ اس زمین کا ایک وصف مُطَہِّر ( پاک کرنے والا ) ہونا ، جو مفقود تھا ، وہ پھر سے پایا جائے گا اور یہ زمین تیمم کے قابِل ہوجائے گی ۔

   خلاصہ یہ ہے کہ نجس زمین جب خشک ہونے کے ساتھ پاک ہوجائے ، اسے قابِلِ تیمم بنانے کے لیے جب دھویا گیا ، تو نہ وہ زمین دوبارہ ناپاک ہوگی ، نہ ہی اس زمین سے لگنے والا پانی ناپاک ہوگا  ، بلکہ دونوں پاک ہی رہیں گے ۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، رد المحتار ، نہر الفائق اور بحر الرائق وغیرہ میں یہی مسئلہ بیان کرنے کے بعد اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : واللفظ للاول قوله: "لاشتراط الطيب نصا" وهو الطهور أي ولم يوجد وذلك لأنها قبل التنجس كان الثابت لها وصفين الطاهرية والطهورية فلما تنجست زال عنها الوصفان وبالجفاف ثبت لها الطاهرية وبقی الآخر على ما كان عليه من زواله فلا يجوز التيمم بها “ ترجمہ :( اس زمین سے تیمم ناجائز ہے ) کیونکہ نص کی وجہ سے تیمم میں زمین کا طیب ہونا شرط ہے اور وہ یہاں نہیں پایا جارہا ، کیونکہ اس زمین کے ناپاک ہونے سے پہلے دو وصف تھے : (1) پاک ہونا ۔ (2) پاک کرنے والاہونا۔ تو جب یہ زمین ناپاک ہوئی ، اس کے دونوں وصف زائل ہوگئے اور پھر خشک ہونے کے ساتھ (اس کا ایک وصف ) پاک ہونے والا، وہ پایا گیا اور دوسرا وصف ( پاک کرنے والا ہونا ، جو تیمم کے لیے شرط ہے ، وہ )جس حالت پر تھا یعنی مفقود ، تو وہ مفقود ہی رہا ( وہ نہیں پایا گیا ) اس لیے اس سے تیمم جائز نہیں ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الطھارۃ ، باب الانجاس و طھارۃ عینھا ، جلد 1 ، صفحہ 232 ، مکتبہ غوثیہ ، کراچی)

   فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے :واللفظ للاول والأرض إذا أصابتها النجاسة فجفت وذهب أثرها ثم أصابها الماء  بعد ذلك الصحيح أنه لا يعود نجسا وكذا لو جفت الأرض وذهب أثر النجاسة ورش عليها الماء وجلس عليها لا بأس به “ ترجمہ : زمین جب ناپاک ہوگئی اور پھر خشک ہوکر نجاست کا اثر ختم ہوگیا ، پھر اس زمین پر پانی پڑا ، تو صحیح یہ ہے کہ دوبارہ ناپاک نہیں ہوگی ۔ اسی طرح اگر زمین خشک ہوگئی اور اس نجاست کا اثر ختم ہوگیا اور اس زمین پر پانی چِھڑکا گیا اور کوئی شخص اس زمین پر بیٹھ گیا ، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔( فتاویٰ قاضی ، کتاب الطھارۃ ، فصل فی النجاسۃ التی تصیب الثوب الخ ، جلد 1 ، صفحہ 31 ، مطبوعہ کراچی )

   علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا زمین کے پانی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے اس کے پاک رہنے سے متعلق فرماتے ہیں:” وأما مسألة الأرض قال في المجتبى الصحيح عدم عود النجاسة وفي الخلاصة بعدما ذكر أن المختار عدم نجاسة الثوب من المني إذا أصابه الماء بعد الفرك قال وكذا الأرض على الرواية المشهورة۔۔۔ فالحاصل أن التصحيح والاختيار قد اختلف في كل مسألة منها كما ترى فالأولى اعتبار الطهارة في الكل كما يفيده أصحاب المتون حيث صرحوا بالطهارة في كل و ملاقاة الماء الطاهر للطاهر لا توجب التنجس، وقد اختاره في فتح القدير ملخصاً “ ترجمہ : بہرحال زمین والے مسئلے میں (کہ خشک ہوکر پاک ہوگئی اور پھر اس پر پانی ڈالا گیا، تو )مجتبیٰ میں کہا : صحیح یہ ہے کہ نجاست واپس نہیں لوٹے گی اور خلاصۃ الفتاویٰ میں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ منی سے آلودہ کپڑے کو جب کھرچنے ( سے پاک کر لینے ) کے بعد پانی لگا ، تو مختار قول یہ ہے کہ وہ پھر ناپاک نہیں ہوگا ( اس کے بعد خلاصۃ الفتاویٰ میں ) کہا : اسی طرح مشہور روایت کے مطابق زمین کا حکم ہے ( کہ پانی لگنے سے وہ بھی دوبارہ ناپاک نہیں ہوگی ) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ( جو چیزیں دھونے کے علاوہ کسی اور طریقے سے پاک ہوجاتی ہیں) ان تمام کے پاک ہونے والے مسئلے میں تصحیح اور مختار قول مختلف ہیں ، لہٰذا اَولیٰ یہ ہے کہ ان تمام میں طہارت کا ہی اعتبار کیا جائے ، جیسا کہ اصحابِ متون کا اسلوب اس چیز کا فائدہ دے رہا ہے کہ اصحابِ متون نے ان تمام چیزوں کے پاک ہونے کی صراحت کی ہے اور پاک پانی جب کسی پاک چیز کو لگے ، تو اسے ناپاک کرنے کا سبب نہیں بنتا ۔ اسے صاحبِ فتح القدیر نے اختیار کیا ہے ۔( البحر الرائق ، کتاب الطھارۃ ، باب الانجاس ، التطھیر بالدھن ، جلد 1 ، صفحہ  393 ، 394 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   ایسے ہی صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں : ”جو چیز سُوکھنے یا رَگَڑْنے وغیرہ سے پاک ہو گئی، اس کے بعد بھیگ گئی ، تو ناپاک نہ ہوگی۔( بھارِ شریعت ، حصہ 2 ، جلد 1 ، صفحہ 402 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم