Pani Ki Tanki Pak Karne Ka Tarika

پانی کی ناپاک ٹینکی کو پاک کرنے کا طریقہ

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0384

تاریخ اجراء: 27 ذو الحج1445ھ/04جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بار ے میں  کہ گھر میں زمین   کے اندر پانی کی ٹینکی بنی ہوئی ہے۔  اس میں پانی موجود ہے اور اس میں   سے مرا ہوا چوہا  نکلا ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ اب اس ٹینکی کو کیسے  پاک کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو اس مرے ہوئے چوہے اور اس کے اجزاء کو باہر نکالیں، اس کے بعد اس ٹینکی کو پاک کرنے کے درج ذیل دو طریقے اپنائے جا سکتے ہیں :

   (1)اس ٹینکی میں پاک پانی ڈالتے جائیں حتیٰ کہ وہ بھر جائے اور پانی اس میں سے  باہر نکل کر بہنے لگے، تو جب ایک طرف سے پانی داخل ہورہا ہو اور دوسری طرف سے خارج ہو جائے اور نجاست کا اثر مثلاً :بو وغیرہ زائل ہوجائے، وہ ٹینکی اور اس میں موجود پانی سب پاک ہوجائیں گے۔

   (2)اس ٹینکی میں موجود سارا پانی باہر نکال کر ٹینکی خالی کردیں اور اسے خشک ہونے دیں، جیسے ہی ٹینکی خشک ہوجائےگی اور نجاست کا اثر زائل ہوجائے گا  (جیسے   مذکورہ صورت میں بد بو ) تو  وہ پاک ہوجائےگی۔  

   اگر ٹینک میں پانی زیادہ ہو ،تو پہلا طریقہ اپنانا زیادہ  مناسب ہے کہ اس سے پانی کی بچت بھی ہے اور آسانی بھی۔ اور اگر ٹینک میں پانی کم ہو تو  اس صورت میں دوسرا طریقہ اپنانا زیادہ سہل ہوگا۔ بہر حال دونوں میں سے  جو بھی طریقہ اپنائیں، اختیار ہے۔

   پانی کے جاری ہوتے ہی وہ پا ک ہوجاتا  ہے، اسی طرح کنواں یا حوض وغیرہ بھی ۔در مختار میں ہے:”ثم المختار طھارۃ المتنجس بمجرد جریانہ وکذا البئر وحوض الحمام“ ترجمہ:پھر مختار یہ ہے کہ ناپاک شے محض جاری ہونے سے پاک ہوجاتی ہے،اسی طرح کنواں اور حمام کا حوض بھی۔

   اس کے تحت علامہ شامی رد المحتا رمیں لکھتے ہیں:”ای: بان یدخل من جانب ویخرج من آخر  حال دخولہ وان قل الخارج ، بحر“ ترجمہ:یوں کہ ایک جانب سے پانی داخل ہو اور اس کے داخل ہونے کے ساتھ ساتھ  دوسری جانب سے  نکل بھی رہا ہو ، اگر چہ نکلنے والے پانی کی مقدار قلیل ہو، بحر۔(در مختار مع رد المحتار،ج1،ص195، دار الفکر، بیروت)

   جاری ہونے کی صورت میں حصول طہارت کی علت بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت فتاوی رضویہ شریف میں  ائمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :”علامہ ابن  عبد البر ابن الشحنہ نے فرمایا:’’لانہ صار جاریاً  حقیقۃً  وبخروج بعضہ وقع الشک فی بقاء النجاسۃ فلا تبقی مع الشک‘‘ (کیونکہ یہ حقیقتاً جاری ہوگیا اور بعض کے خروج سے بقیہ میں نجاست باقی رہنے میں شک واقع ہوگیا اور نجاست شک کے ساتھ باقی نہیں رہتی)، بدائع میں ہے:’’وعلی ھذا حوض الحمام والاوانی اذا  تنجس‘‘ (اور اسی پر حوض اور برتنوں کی  پاکی کا مسئلہ متفرع ہوگا اگر یہ نجس ہوجائیں)۔“(فتاوی رضویہ، ج4، ص384، رضا فاونڈیشن، لاھور)

   اور پاک پانی ناپاک  ٹینکی میں ڈالتے وقت ضروری نہیں کہ وہ بھری ہوئی  ہو ،رد المحتار میں ہے:”ولا یلزم أن یکون الحوض ممتلئا فی أول وقت الدخول لانہ اذا کان ناقصاً فدخلہ الماء حتی امتلأ وخرج بعضہ طھر أیضا کما لو کان ابتداءً ممتلئا ماء نجساً کما حققہ فی الحلیۃ وذکر فیھا أن الخارج من الحوض نجس قبل الحکم علیہ بالطھارۃ“ترجمہ: اور پاک پانی ملانا  شروع کرتے وقت یہ ضروری نہیں  کہ حوض بھرا ہوا ہو،کیونکہ اگر وہ کم ہو اور پانی داخل ہونے سے بھر جائے اور بعض پانی خارج ہوجائے ،تو بھی پاک ہوجائے گا، جیسے اگر شروع ہی سے نجس پانی سے بھرا ہوا ہونے کی صورت میں پاک ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس کی حلیہ میں تحقیق کی ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ حوض پر پاکی کا حکم عائد ہونے سے قبل اس سے جو پانی نکالا جائے گا ناپاک ہوگا۔(در مختار مع رد المحتار،ج1،ص195، دار الفکر، بیروت)

   ہاں پاک ہونے کے لیے نجاست کا اثر زائل ہوناضروری ہے ،جبکہ اس کے زوال میں مشقت نہ ہو،مجمع الانہر میں ہے:”وإنما قيد بالجفاف؛ لأنها لو لم تجف لا تطهر إلا إذا صب عليها ماء بحيث لم يبق للنجاسة أثر فتطهر“ترجمہ:خشک ہونے کی قید لگائی کیونکہ اگر وہ خشک نہ ہوگی تو پاک نہ ہوگی، الا یہ کہ اس پر پانی بہایا جائے اس طرح کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو پاک ہوجائے گی۔(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،ج1،ص60،داراحیاء التراث العربی)

   حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی میں ہے:”لأن الرائحة أثر النجاسة فلا طهارة مع بقائها إلا أن يشق“ ترجمہ:کیونکہ بو نجاست کا اثر ہے اس کے باقی ہونے سے طہارت حاصل نہیں ہوتی الا یہ کہ اس کے زائل ہونے میں مشقت ہو۔(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ،ص 48،دار الکتب العلمیہ)

   رہا خشک ہونے سے ٹینکی کا پاک ہوجانا، تو اس لیے کہ زمین کے اندر موجود ٹینکی زمین ، فرش اور  دیواروں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں زمین سے اتصال قرار حاصل ہوتا ہے ، اور یہ اشیاء زمین کی طرح خشک ہونے سے پاک ہوجاتی ہیں ،  ہندیہ میں ہے:”(ومنها) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر ۔۔۔ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل،كذا في البحر الرائق، ويشارك الأرض في حكمها كل ما كان ثابتا فيها كالحيطان۔۔۔الآجرة إذا كانت مفروشة فحكمها حكم الأرض تطهر بالجفاف ۔۔۔وإذا طهرت الأرض بالجفاف ثم أصابها الماء الصحيح أنها لا تعود نجسا“ ترجمہ:پاک کرنے کے طرق میں سے ایک خشک ہونا اور اثر کا زائل ہونا بھی ہے،  زمین خشک  ہونے اور اثر نجاست زائل ہونے سے پاک ہوجاتی ہے۔۔۔ اور خشک ہونے میں دھوپ، آگ، ہوا اور سایہ کسی (بھی ذریعے )  کے درمیان فرق نہیں ،بحر الرائق میں اسی طرح ہے، اور زمین کے اس حکم میں ہر وہ شے اس کی مشارک ہے جو زمین میں ثابت ہو، جیسے دیواریں ۔۔۔ اینٹیں اگر زمین میں بچھی ہوئی ہوں، تو ان کا حکم زمین کا سا ہے، خشک ہونے سے پاک ہوجائیں  گی۔۔۔پھر خشک ہونے سے جب زمین پاک ہوگئی، پھر اس میں پانی آیا صحیح یہی ہے کہ وہ دوبارہ ناپاک نہیں ہوگی۔(الفتاوى الهنديہ ، ج1، ص44،دار الفکر، بیروت)

   اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ جد الممتار میں اس حوالے سے  تحریر فرماتے ہیں:”لعل الاقرب قصر الحکم علی الارض، و ما اتصل بھا اتصال قرار“یعنی زیادہ قریب تر بات یہ ہے کہ نجاست خشک ہونے اور اس کا اثر جاتے رہنے سے پاکی کا حکم، زمین اور اس سے اتصالِ قرار کے ساتھ چیزوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔(جد الممتار، کتاب الطھارہ،   ج 02، ص 354، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:” دیوار اور ایسی اینٹ جو زمین میں جڑی ہو، یہ سب خشک ہونے سے پاک ہوگئے۔۔۔ اگر پتھر ایسا ہو جو زمین سے جدا نہ ہو سکے، تو خشک ہونے سے پاک ہے ۔“(بھار شریعت، ج 01، ص 401، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم