Sharbat Mein Ungli Dakhil Ho Gai To Kya Is Ka Peena Makrooh Hai ?

شربت میں انگلی داخل ہو گئی، تو کیا اس کا پینا مکروہ ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8744

تاریخ اجراء:11رجب المرجب1445ھ/23جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ گرمیوں میں بعض لوگ میٹھے شربت کی سبیل لگاتے ہیں ۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ سبیل کا شربت بانٹنے والا ہاتھ میں ڈول پکڑ کر گلاسوں میں ڈالتا رہتا ہے اور چند لڑکے لوگوں میں بانٹتے رہتے ہیں، مگر جو ٹب یا بالٹی سے ڈول بھر بھر کر ڈالتا ہے، اکثر اس کا اپنا ہاتھ یا انگلیاں پانی میں داخل ہوتی ہیں۔ اب اگر ڈول بھرنے والا بے وضو ہو، تو کیا شربت مستعمل ہو جاتا ہے اور اس کا پینا  مکروہ ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شربت میں انگلی داخل ہونے سے شربت  مستعمل  اور اُس کا پینا مکروہِ تنزیہی نہیں ہو گا، اگرچہ جس کی انگلی داخل ہوئی، وہ بے وضو ہو، کیونکہ  پانی کے مستعمل ہونے کے لیے اُس کا اِس قابل ہونا ضروری ہے کہ اُس سے نجاستِ حکمیہ کا زوال یا قربت کا حصول ممکن ہو اور یہ خوبی  ”مطلق پانی“ میں ہوتی ہے، اِسی لیے جب مطلق پانی کو مذکورہ مقاصد  کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو وہ ”مستعمل“ ہو جاتا ہے،  جبکہ اِس کے مقابلے میں”مقید پانی“ مثلاً شربت، سرکہ  اور لسی وغیرہا  وضو کے قابل ہی نہیں، تو ہاتھ  لگنے سے اُس کے مستعمل ہونے کا بھی کوئی معنی نہیں کہ مستعمل وہی پانی ہوتا ہے، جو مطلق ہو،  لہذا شربت، دودھ، لسی، سرکہ یا عرقِ گلاب وغیرہا میں اگر کسی بے وضو شخص کی انگلی داخل ہو جائے تو یہ چیزیں مستعمل نہ ہوں گی اور اِن کا پینا بلاکراہت جائز ہو گا، یعنی اِس پر کراہتِ تنزیہی کا حکم بھی  نہ ہو گا۔

    البتہ یہ بات ضرور ملحوظ رہے کہ شرعاً   اگرچہ شربت مستعمل نہ ہو گا، مگر یوں انگلیوں اور ناخنوں کا شربت میں داخل ہونا، اپنی جگہ قبیح، ناپسندیدہ اور  طبعی نفاست کے خلاف ضرور ہے۔  کوئی بھی سلیم الطبع  اور نفیس الفطرت  ایسا مشروب پینے کو پسند نہیں کرتا، لہٰذا سبیل لگانے والوں کو چاہیے کہ طہارت ونظافت کا مکمل خیال رکھیں کہ یہ مطلوب شرع ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تنظفوا بكل ما استطعتم، فإن اللہ تعالى بنى الإسلام على النظافة‘‘ترجمہ:جس قدر ہو سکے، نظافت کا خیال رکھو،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد نظافت پر رکھی ہے۔(کنزالعمال، جلد 09، صفحہ 277، مطبوعۃ مؤسسۃ الرسالہ)

    مقید پانی مستعمل نہیں ہوتا،چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:587ھ /1191ء) لکھتے ہیں:’’لو ‌توضأ ‌بالماء ‌المقيد كماء الورد ونحوه لا يصير مستعملا بالإجماع؛ لأن التوضؤ به غير جائز، فلم يوجد إزالة الحدث ولا إقامة القربة ‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص نے مقید پانی ،مثلاً:عرقِ گلاب وغیرہ سے وضو کیا، تو وہ عرق گلاب یا دیگر مقید پانی بالاجماع مستعمل نہ ہوں گے، کیونکہ اُس سے وضو کرنا ہی جائز نہیں ہے، لہذا اُس سے حدث کا زوال یا قربت کا حصول کچھ بھی نہ ہو گا۔(لہذا جب پانی مستعمل ہونے کے دونوں  یا ایک سبب نہ پایا گیا، تو وہ مقید پانی مستعمل بھی نہ ہوا۔)(بدا ئع الصنائع، جلد01،فصل فی الطھارۃ الحقیقیۃ، صفحہ397،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’لو ‌توضأ ‌بالخل أو بماء الورد لا يصير مستعملا عند الكل كذا في التتارخانية‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص نے سِرکے یا عرقِ گلاب سے وضو کیا، تو وہ سرکہ یا عرق  سب علماء کے نزدیک مستعمل نہیں ہو گا، جیسا کہ ”الفتاویٰ التاتارخانیۃ“ میں ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد01،الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ،  صفحہ23،مطبوعہ  کوئٹہ)

    امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) نے مستعمل پانی کی تعریف، فوائدِ قُیود اور متعلقہ احکامات کو بیان کرتے ہوئے بے نظیر رسالہ بنام الطِّرْسُ المُعدَّل فی حدِّ الماءِ المستعملتصنیف فرمایا۔  اس رسالہ میں مستعمل پانی کی جامع ومانع تعریف  کرتے ہوئے ابتداءً   یہ کلمات تحریر فرمائے:”ماءِ مستعمل وہ قلیل پانی ہے۔۔۔الخ

    پھر اس تعریف کی ابتداء میں مذکور لفظِ ”پانی  کے فوائدِ قید بیان کرتے ہوئے لکھا:’’(26)ہم نے ”پانی“ کو مطلق رکھا اور خود رفعِ نجاستِ حکمیہ واِقامتِ قربت ہائے مذکورہ سے واضح کہ پانی سے مائے مطلق مراد ہے، تو شوربے یا دودھ کی لسی یا نبیذِ تمر سے اگر وضو کرے، وہ مستعمل نہ ہوں گے، اُن سے وضو ہی نہ ہو گا، تو مستعمل کیا ہوں۔(27)خود نفسِ جنس یعنی پانی نے دودھ، سرکہ، گلاب، کیوڑے(ایک پھول کا نام) وغیرہا کو خارج کر دیا کہ اُن سے وضو کرے، تو مستعمل نہ ہوں گے، اگرچہ بے وضو ہو، اگرچہ جُنب ہو، اگرچہ نیتِ قربت کرے کہ غیر آب نجاست حکمیہ سے اصلاً تطہیر نہیں کر سکتا۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد 02،صفحہ47،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم