کیا ہر پنجے والا پرندہ حرام ہے ؟ نیز مرغی کا حکم ؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5561

تاریخ اجراء:30محرم الحرام1441ھ/30 ستمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مرغی،پنجے والا پرندہ ہےتواس کا کھانا حلال ہے یا حرام؟کیونکہ سنا ہے کہ  پنجے والے پرندے حلال نہیں ہوتے ۔ شرعی رہنمائی فرما دیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قوانین شرعیہ کے مطابق ہر پنجے والا پرندہ حرام نہیں ہے ، بلکہ وہ پرندہ حرام ہے،جو اپنے پنجوں سے شکار بھی کرتا ہو ، کیونکہ حدیث میں اس کے لیے"ذی مخلب" کا لفظ وارد ہوا ہے اور مخلب  اس دھار ی دار ناخن کا نام ہے  جس کے ساتھ جانور شکار کرتا ہے۔مرغی  کا اگر چہ پنجہ ہوتا ہے،لیکن یہ  اس سے شکار نہیں کرتی لہذا یہ "ذی مخلب"کے زمرے میں نہیں آئے گی اور ذبح شرعی کے بعد اس کاکھانا بلا شبہ جائز و حلال ہے۔

    صحیح مسلم شریف میں ہے:"عن ابن عباس رضی اللہ عنہ  ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن کل ذی ناب  من السباع وکل ذی مخلب من الطیر"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےہر کیل والے درندےاور ہرشکاری  پنجے والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ۔

                      ( الصحیح لمسلم ،ج2،ص147،مطبوعہ کراچی)

    تنویر الابصارودر مختارمیں  ہے:"(ولایحل  ذومخلب یصید بمخلبہ) ای ظفرہ (من طیر ) ملخصا "پنجوں والا وہ پرندہ  جو اپنے پنجوں یعنی ناخنوں  سے شکار کرے،حلال نہیں ہے۔

                            (تنویر الابصار ودرمختار،ج9،ص508،مطبوعہ کوئٹہ)

    مجمع  الانہر میں ہے:"والمرادمن ذی مخلب  الذی یصید بمخلبہ لا کل ذی مخلب ملخصا"اور   پنجوں والے سے مراد  وہ پرندہ ہے  جو اپنے پنجے سے شکار کرے نہ کہ ہر پنجے  والا۔

                                                                                  (مجمع الانھر،ج4،ص160،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی نوریہ میں  ہے:"عوام کا کہنا کہ پرندہ پنجہ سے کھانے والاحرام ہے ،محض غلط ہے،وہ بیچار ے ذی مخلب کا معنی نہیں جانتے،ذی مخلب کا معنی ہے  مخلب والا اور مخلب اس دھار دار ناخن کا نام  جس کے ساتھ جانورشکار کرتا ہے،پر ظاہر کہ مرغی کبوتر وغیرہ کا پنجہ  ضرور ہے مگر اس سے شکار نہیں کرتے  لہذا ذی مخلب نہ ہوئی۔‘‘

 ( فتاوی نوریہ،ج3،ص413،مطبوعہ:دارالعلوم حنفیہ فریدیہ،بصیر پور)

    عالمگیری میں ہے:"و ما لا مخلب لہ من الطیر فالمستائنس منہ کا لدجاج و البط و المتوحش  کالحمام حلال بالاجماع کذا فی البدائع"اورجن پرندوں کے شکارکرنے والے پنجے نہیں ہوتے تو ان  میں سے  پالتو جیسےمرغی،بطخ اور وحشی جیسے کبوتر بالاجماع حلال ہیں ۔ اسی طرح بدائع میں ہے۔

 (عالمگیری،ج5،ص 289،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم