بندوق سے شکار کرنے کا حکم

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی   زید مجدہ

فتوی نمبر: Web:42

تاریخ اجراء: 15 جمادی الاولی 1442 ھ/31 دسمبر 2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر ہرن کا شکار کرتے ہوئےبسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر گولی ماری جائے لیکن پھر ڈھونڈنے سے پہلے ہی ہرن  مرجائے تو کیا وہ ہرن حلال ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جی نہیں! پوچھی گئی صورت میں وہ ہرن حلال نہیں ہوگا۔ ہاں اگر گولی لگنے کےبعد اسے زندہ پکڑلیااور ذبح شرعی کردیاتو پھر حلال ہوجائےگا۔

     چنانچہ اعلیٰٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”بندوق کی گولی دربارہ حلتِ صید حکمِ تیر میں نہیں، اس کا مارا ہوا شکار مطلقاً حرام ہے کہ اس میں قطع و خرق نہیں، صدم و دق و کسر و حرق ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 343، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ”اگر زندہ پایا اور ذبح کرلیا، ذبح کے سبب حلال ہوگیا، ورنہ ہرگز نہ کھایا جائے، بندوق کا حکم تیر کی  مثل نہیں ہوسکتا، یہاں آلہ وہ چاہیے جو اپنی دھار سے قتل کرے، اور گولی چَھرے میں دھار نہیں، آلہ وہ چاہیے جو کاٹ کرتا ہو، اور بندوق توڑتی ہے نہ کہ کاٹ۔“

(فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 347، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     شکار سے متعلق یہ مسئلہ  ذہن نشین رہےکہ  محض تفریح کےلیے شوقیہ شکار کرنا ،جائز نہیں۔ ہاں اگر واقعی کھانے یا دوا یا کسی اور نفع مثلاً تجارت کے لئے یا کسی ضرر کو دور کرنے کے لئے ہو تو جائز ہے۔

     چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”شکارکہ محض شوقیہ بغرض تفریح ہو، جسے ایک قسم کا کھیل سمجھا جاتاہے ولہٰذاشکارکھیلناکہتے ہیں، بندوق کا ہوخواہ مچھلی کا، روزانہ ہو خواہ گا ہ گاہ، مطلقاً باتفاق حرام ہے۔ حلال وہ ہے جو بغرض کھانے یا دوایاکسی اور نفع یا کسی ضرر کے دفع کو ہو۔  آج کل بڑے بڑےشکاری جو اتنی ناک والے ہیں کہ بازار سے اپنی خاص ضرورت کے کھانے یا پہننے کی چیزیں لانے کو جانا اپنی کسر شان سمجھیں، یا نرم ایسے کہ دس قدم دھوپ میں چل کر مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا مصیبت جانیں، وہ گرم دوپہر، گرم لو میں گرم ریت پر چلنا اور ٹھہرنا، اور گرم ہوا کے تھپیڑے کھانا گوارا کرتے اور دو دو پہر دو دودن شکارکے لئے گھر بار چھوڑے پڑے رہتے ہیں کیا یہ کھانے کی غرض سے جاتے ہیں، حاشا وکلا بلکہ وہی لہو ولعب ہے اور بالاتفاق حرام، ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ ان شکاریوں سے اگر کہے مثلاً مچھلی بازار میں ملےگی وہاں سے لے لیجئے ہر گز قبول نہ کرسکیں گے، یا کہئے کہ اپنےپاس سے لائے دیتے ہیں، کبھی نہ مانیں گے بلکہ شکارکے بعدخود اس کے کھانے سے بھی چنداں غرض نہیں رکھتے بانٹ دیتے ہیں، تو یہ جانا یقینا ًوہی تفریح وحرام ہے۔“

 (فتاویٰ رضویہ، جلد20، صفحہ 341، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

    اور لکھتے ہیں: ”کسی جانور کا شکار اگر غذا یا دوا یا دفعِ ایذاء یا تجارت کی غرض سے ہو جائز ہے اور جو تفریح کے لئے ہو جس طرح آج کل رائج ہے اور اسی لئے اسے شکار کھیلنا کہتے اور کھیل سمجھتے ہیں، اور وہ جو اپنے کھانے کے لئے بازار سے کوئی چیز خرید کر لانا عار جانیں، دھوپ اور لو میں خاک اڑاتے اور پانی بجاتے ہیں، یہ مطلقاً حرام ہے۔۔۔ یہ سب اس فعل کی نسبت احکام تھے، رہی شکار کی ہوئی مچھلی ا س کا کھانا ہر طرح حلال ہے اگرچہ فعل شکار ان ناجائز صورتوں سے ہوا ہو۔“

 (فتاویٰ رضویہ، جلد20، صفحہ 343، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم