زندہ مچھلی کے ٹکڑے کر دیے، تو اس کا کھانا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-5945

تاریخ اجراء:03ربیع الثانی1440ھ11دسمبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں کہ ایک شخص نے بیچنے کے لیے ایک بڑے سے ٹب میں بہت سی مچھلیاں رکھی ہوتی ہیں، کوئی بھی گاہک آتا ہے، تو ان کے سامنے زندہ مچھلی پکڑ کر تول کر قیمت طے کر کے اس کے پیس(ٹکڑے)بنانا شروع کر دیتا ہے، جبکہ مچھلی ابھی زندہ ہوتی ہے، تو کیا اس طرح کرنے سے مچھلی حلال رہتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مچھلی ایسا جانور ہے، جسے ذبح کرنے کی حاجت نہیں، لہذا اگر زندہ مچھلی سے کوئی حصہ جدا کر لیا یا اس کے ٹکڑے کر دئیے ، تو اسے کھانا حلال ہے، البتہ مچھلی والے کو چاہیے کہ اسے عمومی طریقے سے ذبح کرکے پیس بنائے کہ ہمیں ذبح میں اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور زندہ مچھلی کے کسی بھی حصے سے ٹکڑے کردینا  اچھے طریقے سے ذبح کرنے میں نہیں آتا۔

    سنن ابن ماجہ میں حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان، فاما المیتتان فالحوت والجراد واما الدمان فالکبد والطحال‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مرے ہوئے جانور اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔

 ( سنن ابن ماجہ، ابواب الاطعمہ، الکبد والطحال، صفحہ 238، مطبوعہ  کراچی)

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’مچھلی اور ٹیری میں خون ہوتاہی نہیں کہ اس کے اخراج کی حاجت ہو۔ غیرِ دموی جانوروں میں ہمارے یہاں صرف یہی دو حلال ہیں، لہذا صرف یہی بے ذبح کھائے جاتے ہیں۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 335، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ہدایہ شریف میں ہے:’’اذا قطع بعضها، فمات يحل اكل ما ابين وما بقي، لان موته بآفة وما ابين من الحي وان كان ميتاً، فميتته حلال‘‘ ترجمہ: (زندہ) مچھلی کا بعض حصہ کاٹا، پھر مر گئی، تو جو حصہ جدا کیا وہ اور بقیہ مچھلی کھانا حلال ہے، کیونکہ مچھلی کی موت آفت کی وجہ سے ہوئی اور جو زندہ مچھلی سے حصہ جدا کیا گیا، اگرچہ مردار ہے، لیکن مچھلی کا مردار بھی حلال ہے۔

 (ھدایہ، کتاب الذبائح، جلد 4، صفحہ 443، مطبوعہ  لاھور)

    بہار شریعت میں ہے:’’ زندہ مچھلی میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لیا، یہ حلال ہے اور اس کاٹنے سے اگر مچھلی پانی میں مرگئی، تو وہ بھی حلال ہے۔‘‘

         (بھار شریعت، حصہ 15، صفحہ 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم