مچھلی پکڑنے کے لیے زندہ کیڑے لگانا اور پیٹ چاک کیے بغیر چھوٹی مچھلی پکانا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6093

تاریخ اجراء:18رجب المرجب1440ھ26مارچ2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرے بھائی مچھلیوں کا کام کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ بعض مچھلیاں ایسی ہیں، جنہیں پکڑنے کے لئے کانٹے پہ مختلف کیڑے یا کیچوے لگانے پڑتے ہیں، وہ مچھلی ان کے بغیر نہیں پکڑی جاتی، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ انہیں پکڑنے کے لئے کیڑوں کو کانٹے پہ لگانا ، جائز ہو گا؟

    (۲) نیز بہت چھوٹی مچھلیاں جن کا پیٹ چاک کرنا ، ممکن نہ ہو، کیا انہیں اسی طرح بھون کر یا سالن بنا کر کھایا جا سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مچھلیاں پکڑنے کے لیے زندہ کیڑے کانٹے پہ لگانا، جائز نہیں کہ اس میں ان کو بلاوجہ تکلیف دینا ہے، جو منع ہے ،  ہاں اگر پہلے انہیں احسن طریقے سے مار لیا جائے، تو پھر کانٹے میں پِرو کر شکار کرنے میں حرج نہیں۔

    مسلم شریف میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شکار کے متعلق فرمایا:’’ان الله كتب الاحسان على كل شيء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته، فليرح ذبيحته‘‘ ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا مقرر فرما دیا ہے، تو جب تم کسی کو قتل کرو، تو اس میں بھی احسان برتو اور جب ذبح کرو، تو اچھے انداز سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کر لے اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچائے ۔ ‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الصید، باب الامر باحسان الذبح والقتل۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ 152، مطبوعہ کراچی)

    سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’مچھلی کا شکار کہ جائز طور پر کریں، اس میں زندہ گھیسا پِرونا، جائز نہیں ، ہاں مار کر ہو یا تلی وغیرہ بے جان چیز، تو مضائقہ نہیں ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 343، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    بہار شریعت میں ہے:’’بعض لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یازندہ مینڈ کی، کانٹے میں پرو دیتے ہیں اور اس سے بڑی مچھلی پھنساتے ہیں، ایسا کرنا منع ہے کہ اُس جانور کو ایذا دینا ہے، اسی طرح زندہ گھینسا (پتلا لمبا زمینی کیڑا) کانٹے میں پِرو کر شکار کرتے ہیں، یہ بھی منع ہے ۔ ‘‘

(بہار شریعت، حصہ 17، جلد 3 ، صفحہ 694، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    (۲) ایسی چھوٹی مچھلیوں کا کھانا تو حلال ہے، لیکن بچنا بہتر ہے۔

    رد المحتار میں ہے:’’وفی السمک الصغار التی تقلی من غیر ان یشق جوفہ، قال اصحابہ: لا یحل اکلہ،۔۔ وعند سائر الائمۃ: یحل ‘‘ ترجمہ: ایسی چھوٹی مچھلیوں کے متعلق، جن کا شکم چاک کیے بغیر بھون لیا جائے، شوافع نے فرمایا:  ان کا کھانا حلال نہیں ۔ ۔۔ اور بقیہ ائمہ کے نزدیک حلال ہے ۔ ‘‘

(رد المحتار، کتاب الذبائح، جلد 9، صفحہ 515، مطبوعہ پشاور)

    سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی شامی کی یہ عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’آرے در جواھر الاخلاطی دیدم کہ بکراھت تحریم تصریح وھمیں را تصحیح کردہ است، حیث قال: السمک الصغار کلھا مکروہ تحریم، ھو الاصح، پس اسلم اجتناب ست‘‘ ترجمہ: ہاں میں نے جواہر الاخلاطی میں دیکھا  ہے ، انہوں نے اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی تصریح ہے اور اسی کی تصحیح بھی کی ہے، جہاں انہوں نے فرمایا کہ: ’’چھوٹی مچھلیاں تمام مکروہ تحریمی ہیں اور یہی صحیح ہے‘‘، پس اجتناب بہتر ہے ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 333، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اشکال: آپ نے کہا کہ چھوٹی مچھلیاں پیٹ چاک کیے بغیر کھانا حلال ہے، جبکہ جواہر الاخلاطی میں ان کے متعلق مکروہ تحریمی ہونے کا حکم بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ فتاوی رضویہ میں بھی ہے، تو اس میں بظاہر تضاد نظر آ رہا ہے؟

    ازالۂ اشکال:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ بقیہ ائمہ کے نزدیک چھوٹی مچھلیوں کا پیٹ چاک کیے بغیر بھون کر کھانا حلال ہے اور فقہ حنفی کی معتمد کتب مثلاً البنایہ شرح ہدایہ، معراج الدرایہ و رد المحتار میں ائمہ اجلہ نے صاف طور پہ فقط ان کا حلال ہونا بیان فرمایا۔ یونہی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے بھی ایک سوال کے جواب میں شوافع کے علاوہ بقیہ ائمہ کے نزدیک ان کی حلت ذکر فرمائی، تو ائمہ کرام کی ان تصریحات سے واضح ہوا کہ ایسی مچھلیوں کا کھانا حلال ہے، لیکن چونکہ اس کے برخلاف جواہر الاخلاطی میں ان کے مکروہِ تحریمی ہونے کا قول بھی موجود ہے، تو اس قول کی رعایت کرتے ہوئے سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے اختلاف سے بچنے کے لیے ان سے اجتناب کا حکم ارشاد فرمایا ہے، کیونکہ حتی الامکان اختلاف سے بچنا بالاتفاق مستحسن ہے، لہذا ایسی مچھلیوں کے حلال ہونے کے باوجود ان سے بچنا بہتر ہے۔

    حلال ہونے پر رد المحتار کا جزئیہ گزر چکا۔ نیز البنایہ و معراج الدرایہ میں ہے: والنظم للثانی:’’وفی السمک الصغار التی تقلی من غیر ان یشق جوفہ، قال اصحابہ: لا یحل اکلہ،لان رجعہ نجس وعند سائر الائمۃ: یحل ‘‘ ترجمہ: ایسی چھوٹی مچھلیوں کے متعلق، جن کا شکم چاک کیے بغیر بھون لیا جائے، شوافع نے فرمایا:  ان کا کھانا حلال نہیں اور بقیہ ائمہ کے نزدیک حلال ہے ۔ ‘‘

(معراج الدرایہ، کتاب الذبائح، مخطوطہ، غیر مطبوعہ)

    یونہی’’بہار شریعت‘‘، حصہ 15، صفحہ 325 پہ بھی ان کا حلال ہونا مذکور ہے۔

    حلت کے باوجود بچنا بہتر ہے۔ چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے فارسی میں سوال ہوا کہ مالابد میں نہایت چھوٹی مچھلی کو کھانا مکروہ تحریمی لکھا ہے، آپ کا کیا ارشاد ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا: (ترجمہ) باریک ریزہ کی طرح مچھلی جس کا پیٹ چاک نہیں ہو سکتا اور یوں بے چاک بھون کر کھائی جاتی ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہےا ور باقی ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، جیسا کہ معراج الدرایہ میں تصریح ہے۔(پھر فتاوی شامی سے حلت والا جزئیہ مع سیاق و سباق نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں):’’آرے در جواھر الاخلاطی دیدم کہ بکراھت تحریم تصریح وھمیں را تصحیح کردہ است، حیث قال: السمک الصغار کلھا مکروہ تحریم، ھو الاصح، پس اسلم اجتناب ست‘‘ ترجمہ: ہاں میں نے جواہر الاخلاطی میں دیکھا  ہے ، انہوں نے اس کے مکروہ تحریمی ہونے تصریح کی ہے اور اسی کی تصحیح بھی کی ہے، جہاں انہوں نے فرمایا کہ: ’’چھوٹی مچھلیاں تمام مکروہ تحریمی ہیں اور یہی صحیح ہے‘‘، پس اجتناب بہتر ہے ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 332 تا 333، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ایک اور مقام پہ جھینگے کے متعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’معراج میں صاف فرمایا کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں جن کا پیٹ چاک نہیں کیا جاتا اور بے آلائش نکالے بھون لیتے ہیں امام شافعی کے سوا سب ائمہ کے نزدیک حلال ہیں،۔۔مگر فقیر نے جواہرالاخلاطی میں تصریح دیکھی ہے کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں سب مکروہ تحریمی ہیں اور یہ کہ یہی صحیح تر ہے،۔تو یہاں کے جھینگے ایسے ہی چھوٹے ہیں جن پر جواہر اخلاطی کی وہ تصحیح وارد ہوگی، بہرحال ایسے شبہہ واختلاف سے بے ضرورت بچنا ہی چاہئے ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 338 تا 339، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اختلاف سے بچنے کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:’’ان الخروج عن الخلاف احوط واحسن بالاتفاق‘‘ یعنی اختلاف سے بچنا بالاتفاق محتاط اور اچھا ہے ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 3، صفحہ 251، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم