Janwar Zibah Karte Waqt Gardan Ziyada Katna Alag Karna

جانور ذبح کرنے میں گردن کےمہرہ کاٹنا

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6979

تاریخ اجراء: 02 ذوالقعدۃ الحرام1443ھ/02 جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ ہمارے ہاں جانور کو ذبح کرتے ہوئے اس کی چاروں رگوں کو کاٹنے کے بعد اس کی گردن کے مہرے کو بھی کاٹا جاتا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ذبح شرعی کے لیے جانور کی گردن میں موجود مکمل چار رگوں یا ان میں سے اکثر کا کٹ جانا ضروری ہے، اگر نصف یا اس سے کم رگیں کٹیں، تو جانور حلال نہیں ہو گا،  چار رگوں کے نام یہ  ہیں، (1) حلقوم،یعنی سانس والی نالی،(2) مری، جس سے کھانا پانی اترتا ہے، (3،4) ودجین، خون والی دو  رگیں۔ ذبح میں انہی چار رگوں کا کٹ جانا کافی ہے، جان بوجھ کر اس سے زیادہ کاٹنا منع ہے۔اسی طرح  عمداً جانور کو اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے، یا گردن توڑی جائے،  مکروہ و ممنوع ہے کہ اس  میں بلا ضرورت جانور کو ایذا دینا ہے، جبکہ حدیث مبارک میں ہمیں  جانور کو آرام  آزا اپہنچانے  اور اس کو ناحق تکلیف نہ دینے کا حکم دیا گیا ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ اگر کسی نے ذبح کے دوران گردن کا مہرہ کاٹ دیا، یا پورا سر ہی جدا کر دیا، تو جانور حلال ہو گا، حرام نہیں ہو گا، یہ فعل مکروہ وہ ممنوع ہو گا۔

     ذبیحہ کو آرام پہنچانے کے بارے میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، ولیحد أحدکم شفرتہ، فلیرح ذبیحتہ‘‘جب تم ذبح کرو تو احسن طریقے سے ذبح کرو، جو ذبح کرے اسے چاہئے کہ اپنی چھری تیز کر لے،پھر اپنے ذبیحے کو آرام پہنچائے۔(الصحیح لمسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الامر باحسان الذبح، جلد 2، صفحہ 152، مطبوعہ  کراچی )

     ذبح میں کاٹی جانے والی رگوں کے متعلق عالمگیری میں ہے:’’والعروق التی تقطع فی الذکاۃ أربعۃ:الحلقوم، وھو مجری النفس، والمری، وھو مجری الطعام، والودجان وھما عرقان فی جانبی الرقبۃ یجری فیھما الدم، فإن قطع کل الأربعۃ حلت الذبیحۃ، وإن قطع أکثرھا فکذٰلک عند أبی حنفیۃ رحمہ اللہ تعالی۔۔۔ والصحیح قول أبی حنفیۃ رحمہ اللہ تعالی لما أن للأکثر حکم الکل، کذا فی المضمرات، و فی الجامع الصغیر إذا قطع نصف الحلقوم و نصف الأوداج ونصف المرئ لا یحل لأن الحل متعلق بقطع الکل أو الأکثر و لیس للنصف حکم الکل فی موضع الإحتیاط کذا فی الکافی‘‘  وہ رگیں جو ذبح شرعی میں کاٹی جاتی ہیں، چار ہیں۔حلقوم:جو سانس کی گزرگاہ ہے، مری :جو کھانے کی گزر گاہ ہے، اور ودجان: یعنی گردن کے دونوں جانب  دو رگیں جن میں خون جاری ہوتا ہے۔ اگر یہ چاروں کٹ جائیں ،تو ذبیحہ حلال ہےاور اکثر کٹ جائیں، تب بھی امام اعظم  علیہ الرحمۃ کے نزدیک یہی حکم ہے، اور یہی درست ہے کیونکہ اکثر کا حکم کل جیسا ہوتا ہے، مضمرات میں اسی طرح ہے اور جامع الصغیر میں ہے کہ جب سانس کی نالی ، خون کی دونوں رگیں اور کھانے کی نالی نصف کاٹ دی گئی ،تو جانور حلال نہیں ہو گا، اس لیے کہ حِلکا تعلق کل یا اکثر کے کٹنے سے ہے اوراحتیاط والی جگہ پر  نصف کےلیے کل والا حکم نہیں ہے،کافی میں اسی طرح ہے۔ (عالمگیری، کتاب الذبائح، الباب الاول فی تفسیرھا، جلد 5، صفحہ 354،مطبوعہ کراچی )

     ذبح میں حرام مغز تک پہنچنا مکروہ ہے،چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’من بلغ بالسکین النخاع، أو قطع الرأس، کرہ لہ ذٰلک، تؤکل ذبیحتہ۔ ۔۔ والنخاع عرق أبیض فی عظم الرقبۃ، أما الکراھۃ فلما روی عن النبی علیہ الصلاۃ والسلام: أنہ نھی أن تنخع الشاۃ إذا ذبحت، وتفسیرہ ما ذکرناہ، قیل معناہ :أن یمد رأسہ حتی یظھر مذبحہ، قیل إن یکسر عنقہ قبل أن یسکن من الإضطراب، وکل ذٰلک مکروہ، وھٰذا لأن فی جمیع ذٰلک، وفی قطع الرأس زیادۃ تعذیب الحیوان بلا فائدۃ، وھو منھی عنہ، والحاصل: أن ما فیہ زیادۃ إیلام لا یحتاج إلیہ فی الذکاۃ، مکروہ‘‘جو چھری کو حرام مغز تک لے جائے یا سر ہی جدا کر دے، اس کے لیے ایسا کرنامکروہ ہے، البتہ جانور کھایا جائے گا، حرام مغز گردن کی ہڈی میں موجود سفید رگ کو کہتے ہیں۔ یہ کراہت اس لیے ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے وقت جانور کے حرام مغز تک پہنچنے سے منع فرمایا۔ اس کی  تفسیر پہلے گزر چکی ہے، اورکہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذبیحہ کے سر کو ضرورت سے زیادہ کھینچنا ہے، تا کہ ذبح کی جگہ ظاہر ہو، ایک قول کے مطابق جانور ٹھنڈا ہونےسے پہلے اس کی گردن توڑنا مراد ہے۔ بہر حال یہ تمام افعال مکروہ ہیں، کہ ان میں جانور کو بلافائدہ زائد اذیت دینا ہے، جو ممنوع ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ ذبح میں ہر وہ کام جس سے جانور کو بلا فائدہ اذیت ہو مکروہ ہے ۔( ھدایہ، کتاب الذبائح، جلد4، صفحہ 437،438، مطبوعہ لاھور )

     صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے، مکروہ ہے، مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا، یعنی کراہت اس فعل میں ہے، نہ کہ ذبیحہ میں ۔ عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہو جائے ،تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے، یہ کتب فقہ میں نظر سے نہیں گزرا، بلکہ فقہاء کا یہ ارشاد کہ ذبیحہ کھایا جائے گا، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔ ہر وہ فعل جس سے جانور کو بلا فائدہ تکلیف پہنچے، مکروہ ہے، مثلاً: جانور میں ابھی حیات باقی ہو، ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا، اس کے اعضاء کاٹنا یا ذبح سے پہلے اس کے سر کو کھینچنا کہ رگیں ظاہر ہو جائیں یا گردن کو توڑنا ،یوہیں جانور کو گردن کی طرف سے ذبح کرنا، مکروہ ہے، بلکہ اس کی بعض صورتوں میں جانور حرام ہو جائے گا۔“ (بھار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ315، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     نوٹ: ذبح کے وقت حرام مغز کو کاٹ دینا  طبی اعتبار سےبھی نقصان دہ ہے کہ حرام مغز کٹنے سے  جانور جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے خون پوری طرح باہر نہیں نکلتا، ایسے گوشت کا استعمال طبی لحاظ سے بہت نقصان دہ ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم