Stingray Fish Khane Ka Hukum?

Stingray  مچھلی کھانے کا حکم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6894

تاریخ اجراء: 18جمادی الثانی1443ھ/22جنوری 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سمندر میں Stingray   نامی ایک مچھلی ہوتی ہے، جسے سمندری چمگادڑ بھی کہا جاتا ہے، اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   Stingray مچھلی کی ہی ایک قسم ہے، یہ دم دار چپٹے (Flat) جسم والی مچھلی ہوتی ہے، اس کی دم میں ایک کانٹا بھی ہوتا ہے، جس کی مدد سے وہ اپنا بچاؤ کرتی ہے، اس مچھلی کی کم و بیش 220 اقسام ہیں، عام طور پر سمندر اور ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہے، لیکن بعض اقسام دریا میں بھی ملتی ہیں۔ اس کی آنکھیں جسم کے اوپر اور منہ نیچے ہوتا ہے اور یہ گلپھڑوں کے ذریعے سانس لیتی ہے۔ دوسری مچھلیوں کے مقابلے میں اس میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے اور بہت سے ممالک میں مختلف انداز سے بنائی جاتی ہے۔ اس کا ڈھانچہ نرم لچکدار ہڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے، البتہ گوشت میں کانٹے نہیں ہوتے، اسی لیے مارکیٹ میں اس کا گوشت فنگر فش کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

   اس تفصیل کے مطابق Stingray مچھلی کا شرعی حکم یہ ہے کہ اسے کھانا شرعاً جائز ہے، کیونکہ یہ مچھلی کی ہی ایک قسم ہے اور فقہ حنفی کی رُو سے سمندری جانوروں میں سے مچھلی حلال ہے، خواہ وہ کسی قسم کی ہو، چھوٹی ہو یا بڑی، لمبی ہو یا چوڑی، کانٹے والی ہو یا بغیر کانٹے کے، لہذا Stingray مچھلی کھانا بھی جائز ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ اسے مچھلی کی بجائے سمندری چمگادڑ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، تو یاد رہے! اس کا یہ نام ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے دیاگیا ہے، جیسا کہ بام مچھلی کو اس کی شکل و صورت اور لمبا ہونے کی بناء پر سمندر ی سانپ کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ حقیقتاً سانپ نہیں ہے۔

   اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا۔۔ الآیۃ﴾ ترجمہ کنز الایمان: ’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا مسخر کیا کہ اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو۔‘‘ (پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 14)

   اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے: ’’سمندر میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد ہیں، ان میں سے تین فوائد اللہ تعالیٰ نے اس (مکمل) آیت میں بیان فرمائے۔ پہلا فائدہ: تم اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو۔ اس سے مراد مچھلی ہے، یاد رہے کہ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کا گوشت حلال ہے۔‘‘ (تفسیرِ صراط الجنان، جلد 5، صفحہ 290، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سنن ابن ماجہ میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان، فاما المیتتان: فالحوت والجراد،واما الدمان فالکبد والطحال‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مرے ہوئے جانور اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ، ابواب الاطعمہ، الکبد والطحال، صفحہ 238، مطبوعہ کراچی)

   مبسوط سرخسی میں ہے: ’’والسمک ماکول بجمیع انواعہ یثبت الحل فیہ بالکتاب والسنۃ‘‘ ترجمہ: مچھلی کی تمام اقسام کا کھانا جائز ہے، ان کی حلت قرآن و سنت سے ثابت ہے۔‘‘ ( مبسوط سرخسی، کتاب الصید، جلد 11، صفحہ 252،مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ’’ان السمک بجمیع انواعہ حلال عندنا‘‘ یعنی مچھلی کی تمام اقسام ہمارے نزدیک حلال ہیں۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ، جلد 20، صفحہ 339، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   کبھی شکل و صورت میں مشابہت کی وجہ سے ایک چیز کا نام دوسری کے نام پر رکھ دیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقتاً ویسی نہیں ہوتی، جیسا کہ بام مچھلی کو پانی کا سانپ کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کلام کرتے ہوئے امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’(اسے) ہندی میں بام کہتے ہیں۔ جاحظ نے کہا کہ وہ پانی کا سانپ ہے، یعنی صورۃً نہ کہ حقیقتاً، بعض نے کہا وہ سانپ اور مچھلی کے جوڑے سے پیدا ہے،۔۔ اور صحیح یہ کہ یہ بھی بے ثبوت ہے، بلکہ وہ سانپ سے جدا ایک خاص نوعِ ماہی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   2012ء میں دار الذہبیہ، قاہرہ سے کتابی صورت میں چھپنے والی ایک تحقیق میں Stingray کو مچھلی کی اقسام میں شمار کرتے ہوئے چمگادڑ کہنے کی وجہ کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ’’یوجد نوع من السمک یشبہ الخفاش فی شکلہ، لذلک اطلق علیہ السمک الخفاش‘‘ ترجمہ: مچھلی کی ایک قسم ایسی بھی پائی جاتی ہے جو شکل میں چمگادڑ کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس مچھلی کو چمگادڑ (بھی) کہا جاتا ہے۔‘‘ (من عجائب الخلق فی عالم الاسماک، صفحہ 116، الدار الذھبیہ، قاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم