عورت کی عدت کا ایک اہم مسئلہ

مجیب:مولانا فراز مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الآخر 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دو شادیاں کی تھیں ، دونوں بیویوں کو اس نے الگ الگ گھرلے کے دیا ہوا تھا ، دونوں بیویاں اپنے بچّوں کے ساتھ اسی الگ الگ گھرمیں ہی رہتی تھیں ، البتہ شوہر دوسری بیوی کے پاس رہتا تھا۔ اب شوہرکا انتقال ہوگیا ہے تو پہلی بیوی چاہتی ہے کہ چونکہ میرا شوہر دوسری بیوی کے پاس رہتا تھا لہٰذا دوسری بیوی کے گھرجاکرعدت گزارے ، کیا اس کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ دونوں کا گھرزیادہ دور نہیں ہے ، اور کوئی جھگڑا بھی نہیں ہے ، دوسری بیوی بھی اس بات پر راضی ہے کہ پہلی بیوی اس کے گھرمیں آ کرعدت گزارے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں ہربیوی اسی گھرمیں عدت گزارے گی جو گھر شوہر نے اسے رہائش کیلئے دیا ہوا تھا۔ شوہراگرچہ دوسری بیوی کے پاس رہتا تھا ، مگر اس نے پہلی بیوی کو رہائش کیلئے الگ گھر لے کے دیا تھا تو پہلی بیوی اپنی رہائش والے گھر میں ہی عدت گزارے گی ، دوسری بیوی کے گھر میں جاکر عدت گزارنے کی اجازت نہیں ہے ، شرعا یہ اس کیلئے ناجائز و گناہ ہوگا۔

    اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ( لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍؕ-) ترجمۂ کنز الایمان : عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو ، اور نہ وہ آپ نکلیں مگریہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں۔   

(پ28 ، الطلاق : 1) 

    اس آیت کی تفسیرمیں تفسیرات احمدیہ میں ہے :بُیُوْتِهِنَّ  کے لفظ میں صراحت ہے کہ یہاں عورتوں کے گھروں سے مراد وہ گھر ہیں جس میں ان عورتوں کی رہائش ہو ، لہٰذا اس آیت کی وجہ سے عورت پر لازم ہے کہ طلاق یا شوہر کی موت کے وقت ، عدت اسی گھرمیں گزارے گی جو گھرعورت کی رہائش کی وجہ سے عورت کی طرف منسوب ہو۔

(تفسیرات احمدیہ ، ص496)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم