بچہ پیدا ہونے سے  قبل خون آنے پر نماز کا حکم

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولی1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کے  بچہ پیدا ہونے میں ابھی تقریباً دو ہفتے  باقی ہیں لیکن اسے ابھی سے ہی خون اور پانی آنا شروع ہوگیا ہے۔ کبھی خون آنے لگ جاتا ہے تو کبھی رُک جاتا ہے، تو کیا اس خون آنے کی صورت میں اس عورت  کے لئے نماز معاف ہے یا  پھر اسے نماز پڑھنا ہوگی؟ نیز  اگر نماز پڑھنا  ہوگی تو کیا ہر نماز سے پہلے غسل کرنا بھی ضروری ہوگا؟ یا فقط ناپاک جگہ کو دھو کر وضو کرکے نماز پڑھنا ہی  کافی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      پوچھی گئی صورت میں اس عورت پر نماز پڑھنا فرض ہے، کیونکہ حاملہ عورت کو دورانِ حمل آنے والا خون، اسی طرح بچہ کی پیدائش کے وقت جبکہ بچہ ابھی آدھے سے زیادہ باہر نہ نکلا ہو آنے والا خون، استحاضہ کے حکم میں ہوتا ہے اور حالتِ استحاضہ میں نماز روزہ معاف نہیں۔البتہ خون آنے کی صورت میں اس عورت پر ہر نماز سے پہلے غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ ناپاک جگہ کو دھو کر وضو کرلینا کافی ہے، کیونکہ استحاضہ کا خون نواقضِ وضو میں سے ہےاس خون سےغسل فرض نہیں ہوتا البتہ ایسا خون وضو توڑ دے گا۔البتہ اگر عذرِ شرعی ثابت ہو جائے تو پھر استحاضہ والی عورت کو مزید بھی کئی اعتبار سے رعایت مل جاتی ہے۔بہارِ شریعت میں ہے:”استحاضہ میں نہ نماز  معاف ہے نہ روزہ، نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔“

(بہار شریعت،ج1،ص385)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم