Aurat 60 Saal Ki Ho Jaye Tu Kya Parda Karna Zaroori Nahi Rehta ?

عورت ساٹھ سال کی ہوجائے تو کیا پردہ ساقط ہوجاتا ہے ؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1092

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1445 ھ/29اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا عورت جب ساٹھ  سال کی عمر کوپہنچتی ہے تواس پر پردہ کرنا ساقط ہوجاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر کی عورت پر بھی پردہ کرنا لازم ہے۔ البتہ ایسی بوڑھی ہو کہ  اس کی طرف اجنبی مرد کی رغبت نہ ہوتی ہو مثلاً چہرے پر جھریاں آگئی ہوں تو اپنا چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے جبکہ فتنے کا خوف نہ ہو ۔

   چنانچہ قرآن پاک میں ہے:”وَ الْقَوٰعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا یَرْجُوۡنَ نِکَاحًا فَلَیۡسَ عَلَیۡہِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیۡرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیۡنَۃٍ ؕ وَ اَنۡ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیۡرٌ لَّہُنَّ ؕ وَاللہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۶۰۔“ترجمۂ کنزالایمان:اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں جنہیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے بالائی کپڑے اتار رکھیں جب کہ سنگھار نہ چمکائیں اور اس سے بھی بچنا  ان کے لئے اور بہتر ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔(القرآن،پارہ18،سورۃ النور،آیت60)

   فتاوی رضویہ میں ہے:” جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یاگلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز تو اس طورپر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے “(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 239۔240، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مفتئ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقار الدین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا ”عورت جب بوڑھی ہو جائے تو کیا وہ پردہ ترک کر سکتی ہے ؟آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے جواباً ارشاد فرمایا:”بوڑھی عورت بھی پردہ کرے گی ۔مگرچہرہ کھول سکتی ہے ،جبکہ فتنہ کا خوف نہ ہو۔“(وقاری الفتاوی ،جلد03،صفحہ146،مطبوعہ: بزم وقارالدین،کراچی)

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جوان عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے اور بڑھیا کے لئے جس سے احتمالِ فتنہ نہ ہو، مضائقہ نہیں ، مگر ایسے خاندان کی نہ ہو جس کا یوں بھی سامنے آنا اس کے اولیاء کے لئے باعثِ ننگ و عار یا خود اس کے واسطے وجہِ انگشت نمائی ہو۔“(فتاوی رضویہ ملتقطا، جلد22،صفحہ 205۔206، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم