Aurat Ka Makhsoos Ayyam Mein Nakhun Katna Kaisa ?

عورت کا مخصوص ایام میں ناخن کاٹنا کیسا؟

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:44

تاریخ اجراء: 03 ربیع الثانی 1438ھ/02 جنوری 2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت حیض و نفاس  کی حالت میں ناخن کاٹ سکتی ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو گئی اور ابھی تک غسل نہیں کیا تو اس حالت میں اس کے لیے ناخن کاٹنا مکروہ ہے کہ یہ حیض و نفاس سے پاک ہونے کے وقت حدث والی ہوئی ہے، اور اس پر اس وقت غسل فرض ہوا ہے، اب اس حالت میں وہ جنبی کی طرح  ہے، جیسے جنبی کے لیے حالت جنابت میں ناخن کاٹنا مکروہ ہے اس کے لیے بھی مکروہ ہے، اور اگر وہ حیض  و نفاس سے پاک نہیں ہوئی تو اس حالت میں  ناخن  کاٹ سکتی ہے کیونکہ ابھی تک یہ حدث والی نہیں ہےاور اس پر غسل فرض نہیں ہے،اس حالت میں  وہ پاک آدمی کی طرح ہے۔

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: عورت حیض کی وجہ سے اس وقت حدث والی ہو گی جب حیض منقطع ہو جائے اس سے پہلے نہ اسے حدث ہے نہ حکم غسل ۔(فتاوی رضویہ، جلد 3، ص 254، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’عورت ابھی حیض یا نفاس میں ہے خون منقطع نہ ہوا اس حالت میں اگر اس کا ہاتھ یا کوئی عضو پانی میں پڑ جائے مستعمل نہ ہو گا کہ ہنوز اس پر غسل کا حکم نہیں، و المسألۃ فی الخانیۃ و الخلاصۃ و البحر وغیرھا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 2 ،ص 117 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اس عبارت کے تحت فتاوی رضویہ کے حاشیہ میں فائدہ میں ہے: ’’حیض یا نفاس والی کا ابھی خون منقطع نہ ہوا تو وہ مثل طاہر ہے کہ ہنوز اس پر حکم غسل نہیں اگر ٹھنڈک لینے کو کنویں میں گھسے پانی مستعمل نہ ہو گا بخلاف بعد انقطاع کہ اب اس پر حکم غسل متوجہ ہے تو اگر بے ضرورت کنویں میں جائے گی پانی مستعمل ہو جائے گا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 4، ص 638 ،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:’’ و فیہ (البحر) : و کذا الحائض و النفساء بعد الإنقطاع أما قبل الإنقطاع فھما کالطاھر إذا انغمس للتبرد لا یصیر الماء مستعملاً کذا فی فتاوی قاضیخان و الخلاصۃ اھ۔ اور بحر میں ہے: اور یہی حکم حائض و نفاس والی کا ہے جس کا خون منقطع ہو چکا ہو، اور انقطاع خون سے قبل تو وہ دونوں اس پاک شخص کی طرح ہیں جس نے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غوطہ لگایا تو پانی مستعمل نہیں ہوگا، فتاوی قاضی خان  اور خلاصہ میں یہی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 2 ،ص 130 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   غسل فرض ہونے کی حالت میں جو حکم ناخن کاٹنے کا ہے وہی حکم بال کاٹنے یا اپنے فعل سے توڑنے کا بھی ہے، تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک مشہور روایت ہے جو کہ صحاح ستہ اور حدیث کی مشہور تمام کتب میں موجود ہے، اس میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے حیض کی حالت میں حج کے احرام کے لیے سر میں کنگھی کرنے کا حکم فرمایا، اب اس روایت سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حیض کی حالت میں بال توڑنا منع نہیں ہے، کیونکہ عورتیں جب کنگھی کرتی ہیں تو ان کے بال ٹوٹنا بدیہی بات ہے ، تو جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ کو کنگھی کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں تو اس کے ضمن میں حیض کی حالت میں بال ٹوٹنے کی اجازت بھی مستفاد ہوتی ہے، تو جو حکم بال ٹوٹنے کا ہے وہی ناخنوں کا بھی ہے ۔

   چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:’’ قالت: خرجنا موافين لهلال ذي الحجة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أحب أن يهل بعمرة فليهل فإني لولا أني أهديت لأهللت بعمرة، فأهل بعضهم بعمرة و أهل بعضهم بحج وكنت أنا ممن أهل بعمرة فأدركني يوم عرفة و أنا حائض فشكوت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: دعي عمرتك وانقضي رأسك وامتشطي وأهلي بحج، ففعلت حتى إذا كان ليلة الحصبة أرسل معي أخي عبد الرحمن بن أبي بكر فخرجت إلى التنعيم فأهللت بعمرة مكان عمرتي‘‘ ترجمہ : آپ فرماتی ہیں: ہم ذو الحج کا چاند نکلنے کے قریب قریب حج کے لیے نکلے، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہتا ہے وہ عمرے کا باندھ لے اگر میں نے ہدی نہ بھیجی ہوتی تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا،تو بعض نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا احرام باندھا، اور میں نے عمرہ کا احرام باندھ لیا تو عرفہ کا دن آ گیا لیکن میں حیض کی حالت میں تھی، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی تو آپ نے فرمایا: تم  عمرہ چھوڑ دو، اپنا سر کھول دو اور کنگھی کر لو اور اب حج کا احرام باندھ لو، تو میں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب حصبہ یعنی محصب کی رات آئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے ساتھ حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا ، میں تنعیم کے مقام پر آئی اور اپنے عمرے کی قضاء کے لیے دوسرے عمرے کا احرام باندھا۔(بخاری شریف ،جلد 1،ص 45،46 ،مطبوعہ  کراچی)

   اس حدیث مبارکہ کے تحت ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں:’’ قال ابن الملک رحمہ اللہ: أی أمرنی أن أخرج من إحرام العمرۃ  و أترکھا بإستباحۃ المحظورات من التمشیط و غیرہ لعدم القدرۃ علی الإتیان بأفعالھا بسبب الحیض۔ و قال الطیبی رحمہ اللہ: أی أمرنی أن أخرج من إحرام العمرۃ و استبیح محظورات الإحرام و أحرم بعد ذٰلک بالحج فإذا فرغت منہ أحرم بالعمرۃ أی قضاء و ھٰذا ظاھر‘‘ابن الملک رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یعنی مجھے نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں عمرہ کے احرام سے نکل جاؤں اور اس کو احرام کے ممنوعات میں سے کسی پر عمل کر کے مثلاً کنگھی وغیرہ کے ساتھ کھول دوں، کیونکہ حیض کی وجہ سے اس کے افعال کو پورا کرنے کی قدرت نہیں تھی۔ اور طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں عمرہ کے احرام سے نکل جاؤں اور احرام کے ممنوعات میں سے کسی کے ساتھ اس کو کھول دوں، اور اس کے بعد حج کا احرام باندھ لوں، اور جب میں اس سے فارغ ہو جاؤں تو عمرہ کا احرام باندھ لوں یعنی جو پہلے عمرہ چھوڑ دیا اس کی قضاء کر لوں ، اور یہ ظاہر ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 5 ،ص 478،مطبوعہ  کوئٹہ)

   عورت جب حیض و نفاس سے پاک ہو جائے اور ابھی تک غسل نہ کیا ہو تو وہ اس حالت میں حدث والی ہے اور جنبی کی طرح ہے اس کے لیے اس حالت میں ناخن کاٹنا مکروہ ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ و کذا قص الأظافیر کذا فی الغرائب ‘‘جنابت کی حالت میں بالوں کو کاٹنا مکروہ ہے اور اسی طرح ناخنوں کا کاٹنا بھی مکروہ ہے، غرائب میں اسی طرح ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 5،ص 438 ،مطبوعہ کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: جنابت کی حالت میں نہ بال مونڈائے اور نہ ناخن ترشوائے کہ یہ مکروہ ہے۔(بھار شریعت، جلد 3 ،حصہ 16 ،ص 585 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم