Aurat Ka Masjid ul Haram Mein Namaz Parhna Behtar Hai Ya Rehaish Gah Mein?

عورت کا مسجد حرام میں نماز پڑھنا بہتر ہے یا رہائش گاہ میں؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری قادری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8417

تاریخ اجراء:05محرم الحرام1445ھ/24جولائی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ خواتين حج و عمره کے لیے جاتی ہیں،تو خواتین کا مکہ میں مسجد حرام میں نماز پڑھنا بہتر ہے یا ہوٹل میں بہتر ہے؟نیز مسجد حرام کے قریب ہوٹل میں نماز پڑھنے سے ایک نیکی کا ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ثواب ملے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا ہوٹل یا جہاں رہائش ہو ،وہاں نماز پڑھنا ،مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ، کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اپنے مبارک زمانے میں بھی عورتوں  کے گھرمیں نماز پڑھنے کو  مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا تھا۔اور عام طور پر زائرین کے لیے ہوٹل حدودِ حرم میں واقع ہوتے ہیں اور ایک نیکی پرایک لاکھ نیکیوں کا ثواب اور ایک گناہ پر ایک لاکھ گناہوں کا وبال مسجد حرام کے ساتھ خاص نہیں ،بلکہ حدودِ حرم میں جہاں بھی نیکی یا گناہ کیا جائے گا ، تو اس کا ثواب اور وبال ایک لاکھ کے برابر ہی ہوگا ، جیسا کہ خود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے شہرِ مکہ کے ماہِ رمضان کو اس کے علاوہ ماہِ رمضان کے ایک لاکھ مہینوں کے برابر اجر و ثواب والاقرار دیا۔نیزجب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےحدیبیہ کے مقام پر قیام کیا ، تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام حِل میں (حدودِ حرم سے باہر) تھے ، لیکن (نماز کی ادائیگی کے لیے)آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا مصلی حدودِ حرم میں تھا ۔

   یونہی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ حدودِ حرم سے باہر قیام پذیر تھے ، لیکن نماز کے لیے مصلی حرم کی حدود میں بچھاتے تھے ، جب حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی گئی ،تو فرمایا:(ایسا اس لیے کرتا ہوں) کیونکہ حدودِ حرم میں عمل کرنا افضل ہے اور یہاں خطا کرنے کا وبال بھی زیادہ ہے۔

   ان کے علاوہ دیگر احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیکی پر ایک لاکھ نیکیوں کا ثواب اور ایک گناہ پر ایک لاکھ گناہوں کا وبال مسجد حرام کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ پورے حرم کا یہی حکم ہے،لہذا عورت یا مرد کا حدودِ حرم میں واقع ہوٹل پر نماز پڑھنے کا اجروثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہو گا۔

    گھر میں نماز پڑھنے کے افضل ہونے کے متعلق سنن ِابی داؤد میں ہے کہ رسول اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:بیوتھن خیر لھنترجمہ: عورتوں کے لیے ان کے گھر بہتر ہیں۔(ابو داؤد ، کتاب الصلاۃ ،جلد 1 ، صفحہ 155 ، مطبوعہ دارالرسالۃ العالمیہ )

   اس حدیث کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں:(بیوتھن )ای عبادتھن فیھا  (خیر لھن)۔۔۔ من الصلاۃ  فی المسجد “ترجمہ:عورتوں کے لیے ان کے  گھروں میں عبادت کرنا،  ان کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الصلاۃ ، باب الجماعۃ وفضلھا، ج 3 ، ص 837 ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت ، لبنان )

   یونہی مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:”یعنی اس زمانہ میں بھی عورتوں کے لیے گھر میں ہی نماز افضل قرار دی گئی۔“(مراٰۃ المناجیح، ج2، ص155،  مطبوعہ  نعیمی کتب خانہ ، گجرات)

   مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ام حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے :” قالت :قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمنعنا ازواجنا ان نصلی معک و نحب الصلاۃ معک فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاتکن فی بیوتکن افضل من صلاتکن فی حجرکن صلاتکن فی حجرکن افضل من صلاتکن فی الجماعۃ“ترجمہ:حضرت ام حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی  یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ! ہمارے شوہر ہمیں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں،حالانکہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہیں ، تو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا : تم عورتوں کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ، صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تمہارااپنے صحن میں نماز پڑھنا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ، ج 2 ، ص 157 ، مطبوعہ مکتبۃ الرشد ، الریاض)

   ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: ”لا خلاف في أن الأفضل أن لا يخرجن في صلاة لما روي عن النبي  صلى اللہ عليه وسلم  أنه قال: صلاة المرأة في دارها أفضل من صلاتها في مسجدها“ترجمہ:اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ افضل یہی ہے کہ عورتیں کسی نماز میں (گھر سے) نہ نکلیں  ، کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے مروی ہے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے فرمایا  :عورت کا اس کے گھر میں نماز پڑھنا ، اس کے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ (بدا ئع الصنائع، ج1،کتاب الصلاۃ ، ص275،مطبوعہ دار الكتب العلميہ،بیروت)

   شہر مکہ میں ایک رمضان کا ثواب لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر ہونے کے متعلق سنن ابن ماجہ میں ہے:عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:من أدرك رمضان بمكة فصامه وقام منه ما تيسر له، كتب اللہ له مائة ألف شهر رمضان فيما سواها“ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور اُس کے روزے رکھے اور جتنا میسر آیا، قیام کیا، تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے مکہ کے علاوہ کسی اور مقام پر  ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر  ثواب عطا فرمائے گا۔(سنن ابن ماجہ، ج4، باب صوم شهر رمضان بمكة، ص296، مطبوعه دار الرسالۃ العالمیہ )

   مذکورہ حدیث مبارک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:ثم المضاعفة لا تختص بالصلاة بل تعم سائر الطاعات، وبه صرح الحسن البصري فقال: صوم يوم بمكة بمائة ألف، وصدقة درهم بمائة ألف، وكل حسنة بمائة ألف۔۔۔ وذهب جماعة من العلماء إلى أن السيئات تضاعف بمكة كالحسناتترجمہ:پھر یہ ثواب کا زیادہ ہونا، صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ (شہرِ مکہ میں کی جانے والی)ساری نیکیوں اور عبادتوں کو شامل ہے، اِسی چیز کی صراحت حضرت امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کی ہے، چنانچہ فرمایا:مکہ میں ایک دن کا روزہ ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے۔ ایک درہم کا صدقہ ایک لاکھ درہم کے مساوی ہے اور ہر نیکی ایک لاکھ کے برابر ہے۔علمائے دین کی ایک جماعت نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ مکہ مکرمہ میں نیکیوں میں اضافہ ہونے کی طرح گناہوں کے وبال میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج2،کتاب الصلوٰۃ،  ص369، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حدودِ حرم سے باہر ہوتے ہوئے بھی نماز حدودِ حرم میں پڑھنے کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:” ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خرج عام صدوه ، فلما انتهى إلى الحديبية اضطرب في الحل، وكان مصلاه في الحرم“ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  (جب ) اُس سال نکلے  جس سال لوگوں نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو روک دیا ، تو جب آپ  علیہ الصلٰوۃ والسَّلام مقامِ حدیبیہ پر پہنچے ، تو حِل (حدودِ حرم سے باہر) میں پریشانی میں ٹھہرے ، درحال کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کا مصلی حرم میں تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب المغازی ،باب غزوۃ الحدیبیۃ ، جلد 7 ، صفحہ383 ، مطبوعہ مکتبۃ الرشد ، الریاض)

   حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  کے حدودِ حرم میں نماز پڑھنے کے متعلق مصنف عبد الرزاق میں ہے:” اخبرني عبدالكريم الجزري انه سمع مجاهدا يقول رأيت عبد اللہ بن عمرو بن العاص بعرفة ومنزله في الحل ومصلاه في الحرم فقيل له لم تفعل هذا فقال لأن العمل فيه أفضل والخطيئة أعظم فيه“ ترجمہ: عبد الکریم جزری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت مجاہد کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  کو عرفہ میں دیکھا ، ان کا قیام حِل میں ہوتاا ور ان کا مصلی حرم میں ہوتا ، تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  نے فرمایا :اس لیے کہ حرم میں عمل کرنا افضل ہے اور حرم میں خطا بھی بڑی ہے۔(مصنف عبد الرزاق ،کتاب المناسک ، جلد5 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ  المكتب الإسلامي، بيروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) نقل کرتے ہیں: قال الشيخ ولي الدين العراقي: ولا يختص التضعيف بالمسجد الذي كان في زمنه صلی اللہ علیہ وسلم، بل يشمل جميع ما زيد فيه، بل المشهور عند أصحابنا أنه يعم جميع مكة بل جميع حرمها الذي يحرم صيده كما صححه النووي انتهى ما أفاده شيخ مشائخنا محمد بن ظهيرة القرشي الحنفي المكي“ترجمہ: شیخ ولی الدین عراقی نے فرمایا کہ یہ ثواب کا زیادہ ہونا اس مسجد کے ساتھ خاص نہیں ، جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے زمانے میں تھی ، بلکہ یہ اس تمام کوبھی شامل ہے ، جس کا بعد میں بھی اضافہ کیا گیا ، بلکہ ہمارے اصحاب کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ یہ (فضیلت) جمیع مکہ مکرمہ ،بلکہ جمیع حرم کہ جس میں شکار حرام ہے ، اس کو عام ہے، جیسا کہ امام نووی نے اس کی تصحیح کی ،وہ کلام مکمل ہوا، جس کا فائدہ ہمارے مشائخ کے شیخ محمد بن ظہیرہ قرشی حنفی مکی نے دیا۔(رد المحتار ، جلد 1 ، صفحہ 659 ، مطبوعہ دار الفكر ،بيروت)

   مفتی محمد وقار الدین رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتے ہیں:”مسجد حرام وہ عمارت ہے، جوکعبہ کے ارد گرد بنی ہوئی ہے ۔اس کی حدود اس کی مکانیت تک محدود ہیں ، جبکہ حدودِ حرم کی وسعت اس کے علاوہ بھی ہے ۔ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ،دوسری مسجدوں میں جو ثواب ملتا ہے اس سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔حدیث مبارک میں ہے :’’ان حسنات الحرم کل حسنۃ بمائۃ الف حسنۃ ‘‘یعنی حرم میں کی گئی ہر ایک نیکی ، ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے ۔ اسی طرح باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب ، جبکہ جماعتِ صحیح میسر ہو ، تو ایک رکعت پر ستائیس لاکھ رکعات کا ثواب ملے گا۔نوٹ: یہ فضیلت پورے حرم اور ہر نیکی کے لیے ہے۔(وقار الفتاوی ، جلد 2 ، صفحہ 264 ، بزم وقارالدین،مطبوعہ کراچی )

   ایک شبہ اور اس کا  ازالہ:

   ایک روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے خاص مسجد حرام میں نماز کو اس کے علاوہ کسی مسجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل قراد دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیکی کا اجروثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر فقط مسجد حرام کے ساتھ خاص ہے،مکمل حدودِ حرم مراد نہیں،جیساکہ  سننِ ابن ماجہ میں ہے:”صلاۃ فی المسجد الحرام افضل من مائۃ الف صلاۃ فیما سواہ“ترجمہ:مسجد حرام میں نماز پڑھنااس کے علاوہ کسی مسجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔(سنن ابن ماجہ ، جلد 1 ، صفحہ 451 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ)

   اس کاجواب یہ ہے کہ حدیث میں مسجد حرام سے مراد مکمل حرمِ مکہ ہے،جیساکہ قرآن وسنت میں کئی مقامات پر مسجد حرام سے مراد مکمل حدودِ حرم لی گئی ہے،جس کی چند امثلہ پیش ہیں۔

   (1)اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاترجمہ کنزالعرفان:’’ اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں، تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔‘‘(پارہ10،سورۃالتوبۃ ،آیت28)

   مذکورہ آیت میں ”مسجد حرام“ سے پورا حرم مراد لیا گیا ، یعنی مشرکین کا داخلہ صرف مسجد حرام میں منع نہیں ، بلکہ حدودِ حرم میں داخل ہونا،ممنوع ہے،جیساکہ ابو محمد علی بن احمد بن سعيد اندلسی قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”فإن اللہ  تعالى يقول:﴿یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَافلم يختلفوا في أنه  تعالى  أراد الحرم كله “ترجمہ:اللہ تعالی نے فرمایا : بے شک مشرکین ناپاک ہیں، تو وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں ۔اس بات میں اختلاف نہیں کہ اللہ تعالی نے (مسجد حرام سے) پورا حرم مراد لیا ہے۔(المحلی بالآثار ، ج 5 ، ص 149 ، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)

   (2)یونہی اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِترجمہ کنزالعرفان:’’اے ایمان والو! حالت ِاحرام میں شکار کو قتل نہ کرو اور تم میں جو اسے قصداً قتل کرے ،تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے اسی طرح کا وہ جانور دیدے ،جس کے شکار کی مثل ہونے کا تم میں سے دومعتبر آدمی فیصلہ کریں ، یہ کعبہ کو پہنچتی ہوئی قربانی ہو۔(پارہ07،سورۃالمائدۃ،آیت95)

   اس آیت میں بھی کعبہ سے مراد عین کعبہ نہیں، بلکہ پورا حرم مراد ہے،جیساکہ علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  لکھتےہیں:﴿هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ﴾وصفه بكونه بالغ الكعبة، والمراد من الكعبة الحرم لان عين الكعبة غير مراد بالاجماع لانها تصان عن اراقة الدماء، فاريد بها ما حولها، وهو الحرم“ترجمہ: ”ایسی قربانی ہو جو کعبہ کو پہنچتی ہو“ (اس آیت میں ) قربانی کو کعبہ تک پہنچنے والے وصف کے ساتھ موصوف کیا اور کعبہ سے مراد حرم ہے ،کیونکہ (یہاں) عینِ کعبہ تو بالاجماع مراد نہیں ہے ، کیونکہ اسے(کعبہ کو) خون بہانے سے محفوظ رکھا گیا ہے ، لہذا یہاں کعبہ سے اس کے ارد گرد کا (علاقہ) مراد ہے اور وہ حرم ہے۔(البنایۃ شرح ھدایۃ ،کتاب الحج ، فصل صید البر الخ ، ج 4 ، ص 386 ، مطبوعہ دار الكتب العلميہ ، بيروت، لبنان)

   نیز مسجد حرام سے حدودِ حرم مراد ہونے پر نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا یہ فرمان:” من أدرك رمضان بمكة “بھی شاہد ہےکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے شہرِ مکہ یعنی حدودِ حرم میں ایک نیکی کا اجروثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر قرار دیا(مکمل حدیث اوپر فتوے میں مذکور ہے)،یونہی آ  پ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا حِل (حدودِ حرم سے باہر)میں قیام کے باوجود نماز حدودِ حرم میں پڑھنا بھی(جیساکہ اوپر فتوے میں گزرا) اس بات پر دلیل ہے کہ ثواب کا مدار حدودِ حرم  مکمل ہے،مسجد حرام خاص نہیں،لہذا جس حدیث میں مسجد حرام کا ذکر ہے،وہاں مسجد حرام سے مراد مکمل حرم ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم