Bache Ki Paidaish Ke Chalis Din Baad Bhi Aurat Ko Khoon Aaye To Kya Hukum Hai ?

بچے کی پیدائش کے چالیس دن بعد بھی عورت کو خون آئے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-958

تاریخ اجراء:27ذیقعدۃالحرام1444 ھ/17جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی عورت کو بچہ کی پیدائش پر چالیس دن گزرنے کے بعد  بھی خون آرہا ہے، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نِفاس کی زِیادہ سے زِیادہ مدت 40 دن رات ہے، اگر کسی کو چالیس 40 دن رات سے زِیادہ خون آیا، تو اگر اس عورت کو پہلی باربچہ پیدا ہوا ہے یا یہ یاد نہیں کہ اس سے پہلے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن خون آیا تھا، تو ان دونوں صورتوں میں چالیس دن رات نِفاس کے شمار ہوں گے اور باقی دن اِستحاضہ (جو خون بیماری کی وجہ سے آئے، اس کو اِستحاضہ کہتے ہیں۔)

    اگر عورت کو پہلی باربچہ پیدا نہیں ہوا بلکہ اِس بچہ سے پہلے بھی کوئی بچہ ہوا تھا اور یاد بھی ہے کہ اس سے پہلے بچہ کے پیدا ہونے کے بعد کتنے دن خون آیا تو اِس بار اتنے ہی دنوں تک نِفاس ہے اور جتنا زِیادہ ہے وہ اِستحاضہ، جیسے عادت تیس 30 دن کی تھی اور اِس بار پینتالیس 45 دن آیا، تو تیس30 دن نِفاس کے ہیں اور پندرہ15 دن اِستحاضہ کے۔ (ماخوذ ازبہار شریعت ، جلد1، صفحہ377، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   نفاس کے دنوں میں نمازیں معاف ہیں البتہ استحاضہ کے دنوں میں نمازیں معاف نہیں  بلکہ ان دنوں میں نمازیں ادا کرنا فرض ہے ۔ بلا اجازت شرعی نمازیں قضا کیں، تو سخت کبیرہ گناہ ہے۔ اگر اب تک نمازیں قضا کی ہیں، تو سچی توبہ کے ساتھ ساتھ ان نمازوں کو ادا کرنا بھی ذمہ پر لازم ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم