Haiz Ki Halat Me Quran Ka Tarjuma Parhna Kaisa ?

طالبات کا حالتِ حیض میں قرآن کا ترجمہ یاد کرنا کیسا؟

مجیب:  ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12254

تاریخ اجراء:     24 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/24جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدرسے میں طالبات کو قرآنی آیات کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ یاد کرنا ہوتا ہے، تو کیا حالتِ حیض میں کوئی طالبہ قرآن مجید کے ترجمہ کو یاد کرنے کی غرض سے پڑھ سکتی ہے؟ یہاں یہ یاد رہے کہ طالبات کو قرآنی آیت کے بجائے فقط ترجمہ ہی پڑھنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ناپاکی کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا،ناجائزوگناہ ہےاورقرآن پاک کاترجمہ کسی بھی زبان میں کیا گیا ہو،اس کو پڑھنے اور چھونے کا حکم بھی قرآن مجیدکو پڑھنے اور چھونے جیسا ہی ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مخصوص ایام میں کسی طالبہ کا قرآن پاک کا فقط ترجمہ پڑھنا    بھی حرام ہے، خواہ اس ترجمے کو فقط یاد کرنے ہی کی غرض سے پڑھا جائے کہ اس سے مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

   البتہ اگر ان ایام میں طالبہ بغیرپڑھے صرف دل ہی دل میں اس ترجمے کو دہرائے، اس ترجمے پر نظر پھیرتی جائے، تو اس انداز سے اس کا ترجمہ یاد کرنا شرعاً ممنوع نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہوگا کہ قرآن پاک یا اس کے ترجمہ کوبلاحائل چھونے والی صورت نہ پائی جائے۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوبا بالفارسية في الاصحیعنی حیض و نفاس کی حالت میں قصداً قرآن کی قراءت کرنا حرام ہے یونہی اسے چھونا بھی حرام ہے، اصح قول کے مطابق خواہ  وہ قرآن عربی کے علاوہ دوسری کسی زبان ہی میں کیوں نہ لکھا گیا ہو ۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار،کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 535، مطبوعہ کوئٹہ)

   نہر الفائق  میں ہے:ويمنع أيضا حل مسه أي القران ولو مكتوبا بالفارسية إجماعا هو الصحيح۔۔۔۔قيد بالمس لأن النظر إليه غير ممنوعیعنی حیض و نفاس کی حالت میں اسی طرح قرآن کو چھونے سے بھی منع کیا جائے گا اگرچہ وہ قرآن عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں لکھا گیا ہو، یہ اجماعی مسئلہ ہے اور یہی صحیح ہے۔۔۔۔۔یہاں ماتن نے "مس" کی قید اس لیے لگائی کہ قرآن کی طرف فقط نظر کرنا ممنوع نہیں۔ (النھرالفائق،کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 135، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جدا لکھا ہو۔

(فتاوٰی رضویہ ،ج01 (حصہ ب)،ص1074،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”حَیض و نِفاس والی عورت کو قرآنِ مجید پڑھنا دیکھ کر، یا زبانی اور اس کا چھونا اگرچہ اس کی جلد یا چولی یا حاشیہ کو ہاتھ یا انگلی کی نوک یا بدن کا کوئی حصہ لگے یہ سب حرام ہیں۔( بہار شریعت، ج 01، ص 379، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ  علیہ الرحمہ اس حوالے سے نقل فرماتے ہیں:” قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو اس کے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے۔ قرآنِ مجید دیکھنے میں ان سب پر کچھ حَرَج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور خیال میں پڑھتے جائیں۔( بہار شریعت، ج 01، ص 327، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم