Haiz Ki Wajah Se Reh Jane Wale Rozon Ki Qaza Ka Kya Hukum Hai ?

حیض کی وجہ سے روزے رہ جائیں تو کیا ان کی قضا ضروری ہے؟ نیز قضا کا وقت کب تک ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12437

تاریخ اجراء:        02ربیع الاول1444 ھ/29ستمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کے فرض روزے جو حیض کی وجہ سے رہ جاتے ہیں کیا ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہے؟

   اگر ضروری ہے تو ان روزوں کی قضا کا وقت کب تک ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ آنے والے رمضان سے پہلے پہلے عورت ان روزوں کی قضا کرلے ورنہ اسے ایک روزے کے بدلے میں 60 روزے رکھنا ہوں گے، یہ بات کہاں تک درست ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حیض کی وجہ سے جو روزے رہ گئے،  ان روزوں کی قضا عورت پر فرض ہے لہذاعورت کے لیے مستحب یہ ہے کہ ماہ رمضان گزرنےکے بعد ممکنہ صورت میں جتنا جلد ہوسکے ان قضا روزوں کو ادا کرلے  کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔

اب ان روزوں کی قضا کا وقت کب تک ہے؟ اس کی شریعت نے کوئی خاص مدت بیان نہیں کی، لہذا ان قضا روزوں کی ادائیگی کا وقت پوری زندگی ہے۔  ایامِ ممنوعہ کے علاوہ کسی بھی دن یہ قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن فقہائے کرام کی تصریحات کےمطابق مستحب یہ ہے کہ جتنا جلد ہوسکے ان روزوں کی قضا کرلی جائے کہ اس میں بھلائی کی طرف سبقت کرنا اور فرض کی ادائیگی سے برئی الذمہ ہونا ہے۔

   جن لوگوں  نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ ”آنے والے رمضان سے پہلے پہلے عورت ان روزوں کی قضا کرلے ورنہ اسے ایک روزے کے بدلے میں 60 روزے رکھنا ہوں گے“انہوں نے بالکل غلط مسئلہ بیان کیا ہے، لہذا ان سب پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے توبہ کریں  اور آئندہ بغیر علم کے ہرگز کوئی شرعی مسئلہ بیان نہ کریں۔  اس طرح کے مسائل غیر عالم لوگ اپنی جہالت سے بیان کرتے ہیں ۔ یہ بہت نازک معاملہ ہے کیونکہ بغیر علم کے فتویٰ دینا شریعت پر افتراء باندھنا ہے جوکہ سخت  ناجائز وحرام ہےاور قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے۔

   ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕترجمہ کنزالایمان:”تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔“(القرآن الکریم،پارہ02، سورۃ البقرۃ،آیت:185)

   ایامِ ممنوعہ کے علاوہ زندگی میں کبھی بھی قضا روزے رکھے جاسکتے ہیں ۔ جیسا کہ احکام القرآن للطحاوی میں ہے : ”{فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ} ولم يخص بتلك الأيام الأخر ما قبل شهر رمضان الجائي أفنجعله بخلاف ما بعد شهر رمضان الجائي، وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم تدل على خلاف ذلك؟ لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمر الذي أفطر يوما من رمضان فيما روينا عنه في هذا الباب، أن يقضي يوما مكانه، ولم يقل له في شهر رمضان الذي بعده، فدل ذلك على أنه قد أطلق له القضاء في كل الدهر لا فيما نهى عن صومه من الأيام التي نهى عن صومها۔ “ ترجمہ:” اللہ عزوجل کے اس فرمان (فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)میں آنے والے رمضان سے پہلے کسی مہینے کے دنوں کو خاص نہیں کیا گیا تو کیا ہم اس کے برخلاف آنے والے رمضان کے بعد میں کسی مہینے کے ساتھ ان دنوں کو خاص کرلیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس نے رمضان کا روزہ چھوڑا تھا اس روزے کے بدلے میں ایک روزہ قضا کرنے کا حکم دیا اس بارے میں جو روایت ہے وہ ہم نے اس باب میں ذکر کی ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا کہ اس مہینے میں قضا کرو کہ جو اس رمضان کے بعد آنے والا ہے لہذا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ سرکار  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزے کی قضا کرنے کے لیے پورے زمانے کو مطلق رکھا سوائے ان ایامِ ممنوعہ کے کہ جن میں روزے رکھنا ممنوع ہیں۔ “(أحكام القرآن للطحاوی، ج 01، س 414، مطبوعہ استنبول)

   ناپاکی کے ایام میں رہ جانے والے روزوں کی قضا عورت پر لازم ہے۔ جیسا کہ تفسیرِ مظہری میں اسی آیت کے تحت مذکور ہے:”ويلحق بالمريض والمسافر في حق وجوب القضاء الحائض والنفساء بالإجماع والأحاديث عن معاذة العدوية انها قالت لعائشة ما بال الحائض تقضى الصوم ولا تقضى الصلاة قالت عائشة كان تصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة- رواه مسلم- “ یعنی روزےکی قضا کے معاملے میں حائضہ اور نفاس والی عورت بالاجماع مریض اور مسافر کے حکم میں ہیں۔  احادیث بھی اس پر دال ہیں جیسا کہ حضرت معاذۃ عدویہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ کیا وجہ ہے عورت حیض کے دنوں میں رہ جانے والے روزوں کی تو قضا کرتی ہے لیکن نمازوں کی قضا نہیں کرتی ؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا کہ ہمیں بھی یہ معاملہ درپیش ہوا تو  ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا گیا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا، مسلم نے اسے روایت کیا۔ (التفسير المظهری، ج 01، ص 196، مطبوعہ کوئٹہ)

   صحیح مسلم کی حدیثِ پاک میں ہے:”عن عائشۃ کان یصیبنا ذلک فنؤمر بقضاء الصوم و لا نؤمر بقضاء الصلاۃ“یعنی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں یہ معاملہ درپیش ہوا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا  لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب وجوب بقضاء الصوم علی الحائض، ج 01، ص 153، مطبوعہ کراچی )

   رد المحتار  میں اس حوالے سے مذکور  ہے:”(يمنع صلاة) ای الحیض و کذا النفاس (مطلقاً ولو سجدة شكر وصوماً وجماعاً وتقضيه) ای الصوم علی التراخی فی الاصح۔ "خزائن" (لزوما) دونها( للحرج)“ترجمہ: ”حیض اور نفاس مطلقاً نماز سے مانع ہیں اگرچہ سجدہ شکر ہی کیوں نہ ہو، یونہی روزے سے اور جماع سے بھی مانع ہیں مگر روزوں کی قضا کرنا ہوگی،  اصح قول کے مطابق تراخی کے ساتھ  بھی قضا کی جاسکتی ہے "خزائن" ۔ البتہ حرج کی بنا پر ان دنوں کی نمازوں کی قضا فرض نہیں۔ “(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 532، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً و ملخصاً)

روزے کی قضا میں تاخیر نہ کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، بحر الرائق وغیرہ میں ہے :”و النظم للاول“ (ولا يشترط التتابع في القضاء  لإطلاق النص لكن المستحب التتابع وعدم التأخير) ای بعد زوال العذر (عن زمان القدرة مسارعة إلى الخير وبراءة الذمة)یعنی قضا روزے لگاتار رکھنا شرط نہیں کہ نص اس بارے میں مطلق ہے لیکن لگاتار روزے رکھنا اور عذر کے زائل ہونے کے بعد قدرت ہونے کے باوجود تاخیر نہ کرنا مستحب ہے کہ اس میں بھلائی اور برئ الذمہ ہونے  کی طرف سبقت کرنا ہے۔ (حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصوم، ص 687،مطبوعہ کراچی)

بہار شریعت میں ہے:”ان دِنوں میں نمازیں معاف ہیں ان کی قضا بھی نہیں اور روزوں کی قضا اور دنوں میں رکھنا فرض ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 380، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

قضا روزوں کی ادائیگی کے متعلق بہار شریعت میں ہے:”جن لوگوں نے ان عذروں کے سبب روزہ توڑا، اُن پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اور ان قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں۔ فلہٰذا اگر ان روزوں کے پہلے نفل روزے رکھے تو یہ نفلی روزے ہوگئے، حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔

مزید تھوڑا آگے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے، قضا نہ رکھے ۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 1005-1004، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

قضا روزوں کے باب میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”ظاہر یہ ہے کہ قضاء سے روزوں کی قضا مراد ہے جیساکہ اس موقعہ سے اور آئندہ حدیثوں سے معلوم ہورہا ہے۔خیال رہے کہ ہر عبادت کی قضا بہت جلد کرلینا چاہیے کیونکہ موت کی خبرنہیں۔(مرآۃ المناجیح، ج 03، ص 175، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،  لاہور)

بغیر علم کے فتویٰ دینا  شریعت پر افتراء(تہمت) باندھنا ہے جو کہ سخت نا جائز و حرام ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ الْکَذِبَترجمہ کنز الایمان :”اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔“ (القرآن الکریم: پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 116)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”جنھوں نے بھی بے علم کے فتویٰ دیا  انھوں نے اللہ عزوجل کے حرام کو حلال کیا، اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی انھوں نے حرام کی تصدیق کی۔ کنزالعمال کی حدیثِ مبارک ہے"من افتیٰ بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض "یعنی جس نے علم کے بغیر فتویٰ دیااس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج 11، ص 477، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم