Halat e Haiz Me Namaz Maaf Hone ki Hikmat

حالتِ حیض میں چھوٹے ہوئے روزے  کی قضا اور نماز کے معاف ہونے میں حکمت

مجیب: ابومحمد محمد فرازعطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-319

تاریخ اجراء:12شوال المکرم 1443 ھ/14مئی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حالت حیض میں جو روزے چُھوٹے انکی قضاء  لازم ہے جبکہ اسی حالت میں جو نمازیں رہ گئیں،ان کی قضا لازم نہیں ،بلکہ معاف ہے، تو اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہر مسلمان کا ذہن یہ ہونا چاہئے کہ شریعت کا جوبھی حکم ہو، اس پر عمل کرے اور اس کو تسلیم کرے ، اس کی حکمتوں کی تلاش میں نہ رہے کہ یہ ایسا کیوں ہے ، ویسا کیوں ہے ، ہاں اگر اعتراض کئے بغیر کسی اچھی نیت سے کسی حکم کی حکمت معلوم کرنے کی نیت ہو، تو یہ فعل برا نہیں۔

   حائضہ عورت کو نماز معاف ہے ، لیکن حیض کی وجہ سے روزہ چھوٹ گیا ،تو اس کی قضا کا حکم ہے ، اس کی وجہ فقہائے کرام  نے یہ بیان فرمائی  ہے کہ نماز دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے اور عورت کو عام طور پر حیض ہر ماہ میں کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن تک آتا ہے ، تو اگر عورت کو نماز قضا کرنے کا حکم دیا جاتا ،تو ہر ماہ کسی کو پندرہ، کسی کو 25، کسی کو 40 اور کسی کو 50 نمازیں قضا کرنی پڑتیں  اور اس میں دشواری اور آزمائش ہے ،جبکہ روزے سال میں ایک مرتبہ میں فرض ہیں اور ان کی قضا میں کوئی دشواری و آزامائش نہیں کہ سال میں تین سے دس روزے ہی قضا کرنے پڑیں گے۔

   صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت معاذہ عدویہ نے عرض کی کہ حائضہ روزہ قضا کرتی ہے ، لیکن نماز قضا نہیں کرتی ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ عارضہ ہم کو بھی ہوتا تھا،تو ہمیں  روزے  کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔)صحیح مسلم ، کتاب الحیض ،حدیث335(

   اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”معلوم ہوا کہ احکامِ شرعیہ کی حکمتیں پوچھنا برا نہیں ،ہاں احکامِ شرعیہ پر اعتراض کرنا گناہ ہے ۔۔۔حضرتِ عائشہ کی طرف سے دئیے گئے جواب کے متعلق مفتی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:سبحان اللہ!کیسا ایمان افروز جواب ہے کہ مجھے عقلی حکمتوں سے غرض نہیں ،ہم تو حکم کے تابع ہیں ، چونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی قضا کا حکم دیا ،نماز کی قضا کا نہیں ،اس لئے یہ فرق ہوگیا ، ہمیں عقلی حکمتوں سے کیا غرض ۔۔۔فقہاء فرماتے ہیں کہ روزے کی قضا میں ندرت ہےکہ سال میں سات  آٹھ روزے قضا کرنے پڑتے ہیں ،اس لئے اس میں دشواری نہیں اور قضائے نماز میں کثرت ہے کہ ہر مہینہ سات آٹھ دن کی فی دن پانچ نمازیں قضا کرنی پڑتیں یعنی چالیس بلکہ بعض کو پچاس نمازیں،اس میں بہت دشواری ہوتی، اس لئے نمازوں کی قضا نہیں ، روزوں کی ہے۔(مرآۃ المناجیح ملتقطا، جلد3،صفحہ 260،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم