Halat e Istihaza Mein Aurat Ka Itikaf Karna Kaisa ?

حالتِ استحاضہ میں عورت کا اعتکاف کرنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13311

تاریخ اجراء: 11رمضان المبارک1445 ھ/22مارچ 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ استحاضہ کی حالت میں عورت ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   استحاضہ میں آنے والا خون ،بیماری کا خون ہوتا ہے، اس خون کے وہ احکام نہیں جو حیض و نفاس میں آنے والے خون کے احکام ہوتے ہیں، جیسے حیض و نفاس کی حالت میں عورت کا نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، یہ سب ناجائز و حرام ہوتا ہے، لیکن استحاضہ کی حالت میں عورت پاک ہوتی ہے۔ اس حالت میں عورت پر نہ نمازمعاف ہوتی ہے نہ ہی بلا عذر شرعی  روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوتی ہے ۔

   واضح ہوا کہ استحاضہ کی حالت میں عورت ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرسکتی ہے، اس میں کوئی حرج والی بات  نہیں ۔

   استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کرنا، جائز ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف کی حدیثِ مبارک میں ہے:عن عائشة رضي الله عنها قالت اعتكفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأة من أزواجه مستحاضة فكانت ترى الحمرة والصفرة فربما وضعنا الطست تحتھا وهي تصليیعنی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت  کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے ایک خاتون نے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کیا، وہ سرخ  اور زرد رنگ کا (استحاضہ کا خون ) دیکھتی تھیں۔بسا اوقات ان کے نماز پڑھنے کے دوران ہم ان کے نیچے طشت رکھ دیتے ۔(صحيح البخاري، کتاب الاعتکاف ، ج 03، ص 50، دار طوق النجاۃ)

   علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ "عمدۃ القاری" میں مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”مما يستنبط منه جواز اعتكاف المستحاضة وجواز صلاتها لأن حالها حال الطاهرات وأنها تضع الطست لئلا يصيب ثوبها أو المسجد وأن دم الاستحاضة رقيق ليس كدم الحيض ويلحق بالمستحاضة ما في معناها كمن به سلس البول والمذي والودي ومن به جرح يسيل في جواز الاعتكاف۔“ یعنی اس حدیثِ پاک سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ حالتِ استحاضہ میں اعتکاف  جائز ہے اور ایسی عورت کی نماز بھی جائز ہے کہ اُس کی حالت پاک عورتوں والی ہے۔ اور حدیثِ پاک میں جو طشت رکھنے کا ذکر ہے وہ اس لیے ہے تاکہ اُن کے کپڑے یا مسجد  آلودہ نہ ہوں ۔ اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ استحاضہ کا خون باریک ہوتا ہے یہ حیض کے خون کی طرح نہیں ہوتا۔ مستحاضہ کے حکم میں وہ افراد بھی داخل ہیں جنہیں مسلسل پیشاب، مذی، ودی وغیرہ کا عارضہ لاحق ہو، یونہی وہ افراد جن کے زخم سے مسلسل خون جاری ہو کہ ان افراد کا اعتکاف کرنا بھی شرعاً جائز ہے۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، کتاب الحیض، ج 03، ص 280، دار الفكر، بیروت)

   شارح بخاری احمد بن محمد القسطلانی علیہ الرحمہ "ارشاد الساری" میں مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: فيه جواز صلاتها كاعتكافها لكن مع الأمن من التلويث كدائم الحدث۔“ یعنی اس حدیثِ پاک سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ حالتِ استحاضہ میں نماز  جائز ہے جیسا کہ اُس کا اعتکاف جائز ہے، مگر تلویث سے امن کے ساتھ جیسا کہ دائمی حدث والا کہ اُس کی نماز اور اعتکاف جائز ہے۔(إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ، ابواب الاعتکاف، ج 03، ص 444، مطبوعہ مصر)

   ابو الحسن عبد الملك بن بطال علیہ الرحمہ "شرح ابن بطال" میں مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: ”حكم المستحاضة كحكم الطاهر، ولا خلاف بين العلماء فى جواز اعتكافها۔ یعنی مستحاضہ عورت  کا حکم پاک آدمی کے حکم کی طرح ہے ، مستحاضہ عورت کا اعتکاف جائز ہونے میں علماء کا  کوئی اختلاف نہیں۔ (شرح صحيح البخارى لابن بطال، کتاب الاعتکاف، ج 04، ص 174، مطبوعہ ریاض)

   حالتِ حیض میں اعتکاف جائز نہیں۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے: ”الحيض ينافى أهلية الاعتكاف لمنافاتها الصوم ولهذا منعت من انعقاد الاعتكاف۔“ یعنی حیض منافی روزہ ہونے کی بنا پر اعتکاف کی اہلیت کے بھی منافی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حیض اعتکاف منعقد ہونے سے بھی مانع ہے۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الاعتکاف، ج 02، ص 116، دار الكتب العلمية،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:”اِستحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ ،نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 385، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم