Doodh Pilane ‎Wali aur Hamla Aurat Ke Liye Roze Ka Hukum?

دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کے لیے روزے کا حکم

مجیب: ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر: Aqs-1316

تاریخ  اجراء: 15شعبان المعظم3914ھ/02مئی2018ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس سے کافی پریشانی ہورہی ہے ،کمزوری بہت ہے ، تو یوں خطرہ ہے کہ کہیں بیمار نہ ہوجائے ، تو کیا اس صورت میں اسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو گی؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   دودھ پلانے والی عورت ،اسی طرح حاملہ خاتون کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کو نقصان پہنچنے یا بیمار ہو جانے یا ناقابل ِ برداشت مشقت میں پڑ جانے کا صحیح اندیشہ ہے ، تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورظنِ غالب تین طرح سے حاصل ہو سکتا ہے: اس کی کوئی واضح علامت ہو یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو یا کوئی ایسا مسلمان ڈاکٹر جو اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو اور اپنے شعبے میں مہارت رکھتا ہو ، بتائے ۔ یا د رہے کہ بیماری یا ہلاکت وغیرہ کا محض خیال کافی نہیں ، بلکہ مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق ظن غالبِ حاصل ہونا ضروری ہے۔

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی دودھ پلانے سے ایسی کیفیت ہوجاتی ہے اور اوپر مذکور تین چیزوں میں کوئی چیز پائی جاتی ہے ، تو پھر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں ۔

   نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحامل أو المرضع الصوم“ترجمہ:بے شک اللہ تعالی نے مسافر سے روزے اور نماز کے ایک حصے کو اٹھا  دیا ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی سے بھی روزے اٹھا دیے ہیں ۔( سنن ترمذی، کتاب الصوم ،باب ما جاء فی الرخصۃ الخ، جلد3، صفحہ 50، دار ابن کثیر ، بیروت)

   ملتقی الابحر میں ہے:”حامل او مرضع خافت علی نفسھا    او     ولدھا تفطر   و   تقضی“ ترجمہ:حاملہ یا دودھ پلانے والی کو اپنی یا بچے کی جان کا خوف ہو تو روزہ نہ رکھے اور (بعد میں) قضا کرے۔(ملتقی الابحرمع مجمع الانھر، کتاب الصوم، جلد1، صفحہ 369،  مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:” حاملہ کو بھی مثلِ مرضعہ روزہ نہ رکھنے کی اجازت اسی صورت میں ہے کہ اپنے یا بچّے کے ضرر کا اندیشہ غلبہ ظن کے ساتھ ہونہ کہ مطلقاً ۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ حاملہ ، دودھ پلانے والی اور مریض کے روزہ چھوڑنے کی صورت کو بیان کر کے لکھتے ہیں :”ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے ،محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:

(1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا

(2) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا

(3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“(بھار شریعت، جلد1، صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم